• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

کیا عدالتی فیصلے نے نواز شریف کو نئی زندگی دے دی؟

شائع December 17, 2017 اپ ڈیٹ December 21, 2017
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

موجودہ منظر نامہ بظاہر طور پر نواز شریف کے حق میں نظر آتا ہے، کیونکہ عدالت نے نادانستہ طور پر نواز شریف کو نئی زندگی سے نواز دیا ہے۔

جو پورا ہفتہ خبروں میں تھے ہی نہیں، اُن کے لیے واقعی یہ کوئی بُری خبر نہیں۔

نواز شریف کے لیے آئیڈیل منظرنامہ تو یہ ہوتا کہ شہباز شریف کے خلاف کیس کُھلتا اور عمران خان نااہل قرار پاتے کیونکہ شہباز شریف کے خلاف احتساب مقدمے سے اُنہیں اِس واحد برتری سے ہاتھ دھونا پڑتا جو اُنہیں نواز پر حاصل ہے، یعنی قانونی مسائل سےآزادی۔

ماڈل ٹاؤن معاملہ اگرچہ چھوٹے بھائی کے سیاسی کریئر کے لیے خطرہ تو ہے لیکن فی الوقت یہ معاملہ چوہے بلی کا کھیل ہی بنا ہوا ہے اور بچ نکلنے کی بھی ابھی کافی گنجائش باقی ہے۔

دونوں بھائیوں کے احتساب عدالت کے چکر لگانے سے نواز کے مسائل کو ایک مختلف رخ ملے گا اور ہوسکتا ہے اُنہیں زیادہ ہمدردی بھی ملے۔

عمران خان کی نااہلی تو نواز شریف کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ثابت ہوتی، کیونکہ اِس طرح نااہلی سے متعلق آئینی شقوں میں ترمیم کرنے کا راستہ صاف اور آسان ہوجاتا، اور یوں نواز کی واپسی کا راستہ جلد سے جلد طے ہوجاتا۔

نواز لیگ کے پاس پارلیمنٹ میں اتنی اکثریت نہیں کہ وہ تنہا اِس کام کو انجام دے سکے اور سینیٹ یا عام انتخابات کے بعد بھی اتنی اکثریت حاصل نہیں ہوگی، لیکن اگر عمران نااہل ہوجاتے، تو دو جماعتیں مل کر اِس مسئلے کو حل کر دیتیں، وہی مسئلہ جو پھر کسی ایک کے لیے نہیں بلکہ ہر کسی کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہوتا۔

عمران خان کے بغیر انتخابات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور عمران کی مدد کے لیے نواز شریف کو بھی واپس انتخابی میدان میں لانا پڑتا۔

نواز شریف کے لیے بہترین منظرنامہ تو تشکیل نہیں پاسکا، تاہم خوشی منانے کی اب بھی ایک وجہ باقی ہے۔ عدالت کا جو بھی اصرار ہو، لیکن وہ سیاسی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ یہ بات عام طور پر سیاستدان کے مفاد میں ہوتی ہے۔

اِس پورے پاناما بکھیرے میں جو سب سے معقول ترین کام نواز لیگ نے کیا وہ تھا عمران خان اور اُن کے ایک اہم ساتھی کو بھی اِس بکھیرے میں گھسیٹنا تھا۔

یوں ایک حد تک عدالت اِس پورے معاملے میں پھنس کر رہ گئی تھی۔ وہ عدالت جس نے بظاہر عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کو بند کروانے کے اعلان کو واپس لینے میں کردار ادا کرکے عوام کی خوشنودی حاصل کی تھی، اُسی عدالت نے پاناما بکھیرے میں خود کو بھی شامل کرلیا، لیکن اگر عدالت نواز شریف کے خلاف مقدمہ سن سکتی ہے تو عمران خان کے خلاف استدعا کو آسانی سے رد بھی نہیں کرسکتی تھی۔

نواز لیگ نے عقلمندی سے کام لیتے ہوئے ترین کو بھی ہدف بنایا۔ یوں عمران کے آس پاس سیاہ سائے منڈلانے لگے اور اُن کے دشمنوں کے لیے اُن سایوں سے فائدہ اُٹھانا آسان ہوگیا، لیکن ترین سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا کیونکہ اُن کے خلاف مقدمہ لندن جائداد کو لے کر تھا۔

اِس طرح اُن کا موازنہ اب نواز شریف سے کیا جاسکتا تھا۔

اگر ترین نہیں بچتے، جس کا اندازہ بھی تھا، تو دونوں طرف تقریباً ایک جیسی صورتحال ہوتی: تحریک انصاف اور نواز لیگ دونوں کی فطرت میں کوئی فرق نہیں؛ امیر کبیر لوگ وہی کچھ کر رہے ہیں جو کچھ کرتے چلے آئے ہیں۔

عمران خان کی ضد ایک بڑا ہی اچھا بونس ہے۔ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اب یہ فارمولہ اپنانے کا فیصلہ کرچکی ہے کہ ترین کو باضابطہ طور پر پارٹی عہدے سے تو فارغ کردیا جائے لیکن عمران خان کے ساتھ تشریف فرما ہوں۔

سیاسی طور پر تو یہ نواز کے لیے اچھا ہے۔ نواز لیگ نے نواز شریف کی نااہلی کی کہانی میں ایک لفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، اور وہ ہے ’اقامہ‘۔ ایک متعصب اور ایک ایجنڈے کے برابر ایک انتہائی معمولی چیز ہے۔

اب لگتا ہے کہ عمران بھی ایک نااہل کو ساتھ بٹھانے کے لیے پُرعزم ہیں جنہیں پی ٹی آئی کی نظر میں مبینہ طور پر معمولی متعصب اور ایک ایجنڈے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا ہے۔

نواز لیگ تو بڑی خوش ہوگی، کیونکہ وہ عمران کی بچنے پر اُنگلی بھی اٹھا سکتی ہے اور دوہرے معیار پر سوال بھی کھڑا کرسکتی ہے۔ جن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ماہرین اختلاف کا شکار ہیں وہ پیچیدگیاں شاید ہی کسی اوسط ووٹر کو سمجھ آئیں۔

ساتھ ساتھ نواز لیگ ترین کی موجودگی پر بھی انگلی اُٹھا سکتی ہے اور یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ دیکھو پی ٹی آئی بھی وہی باتیں کر رہی ہے جو نواز لیگ کب سے نواز شریف کے بارے میں کہتی آرہی ہے کہ معمولی، متعصب اور ایجنڈے کی بنیادوں پر نااہل قرار دیا گیا۔

اِس وقت نواز شریف کے لیے ایک بکھری سیاسی دنیا ہی سب سے بہتر سیاسی دنیا ہے۔ واقعی، جتنی زیادہ بکھری ہوگی اتنی ہی بہتر ہوگی۔ اِس سے بڑھ کر چیف جسٹس نے دھواں دھار تقریر کرکے نادانستہ طور پر شاید اُن پر ایک احسان کر دیا ہے۔

یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ سیاسی دنیا کے باہر بیٹھے لوگوں کو سیاست کے اتار چڑھاؤ اور قوانین کی پرکھ نہیں ہے، چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے اپنے ادارے کے حق میں زبردست دفاع سے ایک ایسا دروازہ کھل گیا ہے جس میں داخل ہونے کے لیے کئی لوگ بے تاب تھے، کیونکہ عدالتی تعصب کے تاثر کو شدید انداز میں مسترد کرنا سیاسی اور عوامی بحث کو دعوت دینے کے برابر ہے، جس سے گریز کرنے کی ضرورت تھی۔

عدالت کے لیے عقلمندانہ بات تو یہی ہوتی کہ وہ کبھی اِس راستے کو نہ چنتی، لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔

جبکہ عدالت کے لیے دوسری سب سے بہتر بات یہی ہوتی کہ وہ خود کو اِن مسائل سے نکالنے کا راستہ تلاش کرتی، جو ناخوشگوار سیاسی نتائج پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ادارے کے رجحان میں تبدیلی کی وجہ سے ایسا کرنا شاید مشکل ہو۔

افتخار چوہدری کی عدالت کی ایک بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ بڑے سوالات پر باہمی رضامندی پر زور ڈالتی تھی۔ بڑے مقدمات میں تمام ججوں کو اکٹھا کیا جاتا اور اِس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ وہ سب ایک ہی زبان بولیں۔

مگر یہ ایک غلط تصور تھا اور اِس سے قانون کو نقصان پہنچا، اور اِس کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں چوہدری افتخار کے بعد آنے والوں نے روایت سے ہٹ کر اختلاف رائے کا احترام کرنا شروع کردیا۔

نظریے کی حد تک تو یہ چیز قانون کے لیے بہت بہتر ہے، لیکن عملاً، جب عدالتوں کو سیاسی تنازعات کا فیصلہ کرنے کا کہا جاتا ہے، تو یہی چیز تکرار اور کنفیوژن کو پیدا کرتی ہے۔

تکرار اور کنفیوژن نواز شریف کے لیے بہتر ہے، کیونکہ احتساب عدالت میں ایک بڑا خطرہ اُن کا منتظر ہے۔ ٹرائل کورٹ کی سزا اور فیصلے کو بدلنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور اِس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، لیکن اگر ایک عدالتی عمل مجموعی طور پر تنازع کی نذر ہوجائے تو اعلیٰ عدالتوں کے اہم منصب پر بیٹھنے والوں کے لیے اپیل سننا یا اُس پر فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر اپیلیں برسا برس کھنچتی چلی جاتی ہیں اور اِس عرصے کے دوران سیاسی مسائل حل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

عدالت نے اپنی اندرونی وجوہات کے لیے اختلافِ رائے کو قبول کرلیا، لیکن سیاسی دنیا میں اِسی اختلاف نے کنفیوژن پیدا کردیا ہے اور یوں عدالت نے انجانے میں ہی شاید نواز شریف کو نئی زندگی دے دی ہے۔ وہ اِس ہفتے خبروں میں نہیں تھے لیکن یہ ہفتہ اُن کے لیے بالکل بھی بُرا ثابت نہیں ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

سیرل المیڈا

لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ان کی ٹوئٹر آئی ڈی cyalm@ ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

عدنان جِداکر Dec 17, 2017 08:21pm
تحریک انصاف نے ترین کے نام پر ووٹ نہیں لیے تھے۔ لہذہ نواز شریف اور ترین کے لندن فلیٹ کا موازنہ مسترد نواز شریف اب ماضی کا حصہ ہے ، الطاف اور طالبان کی طرح

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024