فاٹا اصلاحات پر محمود خان اچکزئی نے نیا فارمولا پیش کردیا
اسلام آباد: پختونخوا ملی عوامی پارٹی ( پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے مستقبل کے حوالے سے ایک تجویز پیش کی، جس کے مطابق ججوں، جنرلز اور سفارتکاروں پر مشتمل ایک جوڈیشل کونسل کی طرح کی باڈی تشکیل دی جائے، جو جمہوریت اور قبائلیوں کی خواہشات کے مطابق ہو۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے انہیں اور جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے جواب میں ان کا کہنا تھا صدر مملکت کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کا خاتمہ کردینا چاہیے۔
واضح رہے کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے مطالبے پر محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے۔
قبائلی علاقوں کے صوبے سے انضمام کے منصوبے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ فاٹا پر کسی گورنر یا قبائلیوں کی جانب سے منتخب کونسل کے ذریعے حکمرانی کی جائے۔
پی کے میپ کے سربراہ نے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ پارلیمان کا فاٹا اصلاحات میں کوئی کردار نہیں، میں آپ کو ایک حل پیش کررہا ہوں، میں نے کسی کو برا نہیں کہا تو ہمیں بھی برا نہیں کہا جائے۔
مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات بل: قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے پر حکومت کو شرمندگی کا سامنا
دوسری جانب پیر کو فاٹا اصلاحات بل ایجنڈے سے نکالنے پر اپوزیشن ارکان کی جانب سے مسلسل چوتھے روز بھی اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری رہا تاہم وہ اسمبلی اجلاس میں خلل ڈالنے میں ناکام رہے۔
ڈپٹی اسپیکر اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی نے اپوزیشن ارکان کے واک آؤٹ کے باوجود اجلاس کو ایک گھٹنے تک جاری رکھا اور تقریباً ایجنڈے کو مکمل کیا تاہم اسمبلی سوالات لینے میں ناکام رہی کیونکہ ارکان کی جانب سے اجلاس کے پہلے گھنٹے میں فاٹا اصلاحات اور گندم کے کاشتکاروں کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
اسمبلی اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی محمد علی خان کی جانب سے محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران کئی مرتبہ مداخلت کی گئی۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی جانب سے حکومت پر الزام لگایا کہ دو لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے فاٹا ریفارمز میں تاخیر کی گئی۔
محمود اچکزئی نے کہا کہ میں پاکستانی شہری ہوں اور کسی چیز کی حمایت یا مخالفت کرنا میرا جمہوری حق ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ فاٹا کے موجودہ نظام میں کسی قسم کی تبدیلی پاکستان کے لیے خطرہ پیدا کرسکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ 1947 کے آزادی ایکٹ کے مطابق فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔
انہوں نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز حکمرانوں اور قبائلی عمائدین کے درمیان بہت سے معاہدے ہوئے، جس میں فاٹا کے عوام کو ’آزاد لوگ‘ ظاہر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور فاٹا کے درجے میں تبدیلی پر افغانستان اعتراض اٹھا سکتا ہے، اگر ہم نے یہاں کوئی غلطی کی تو ہماری مسلح افواج یہاں پھنس جائیں گی۔
انہوں نے کہا پہلے ہی روزانہ کی بنیاد پر قبائلی علاقوں سے فوجوں پر حملوں کی اطلاعات مل رہی ہیں جبکہ آرمی چیف سے ملنے والے قبائلی وفد نے کہا تھا کہ ان کی خواہشات کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا جائے۔
محمود خان اچکزئی کی تقریر کے جواب میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ برطانوی حکمرانوں کی جانب سے کیے گئے تمام معاہدے اور ایکٹ بے کار ہوگئے ہیں، ہم برطانوی دور کے کسی فیصلے کی پاسداری کرنے کے پابند نہیں، ہم بھارت اور افغانستان کے نظریات تسلیم نہیں کرسکتے، فاٹا کے 95 فیصد عوام پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام چاہتے ہیں کہ انہیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق ہونا چاہیے اور یہ ان کا بنیادی حق تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا اصلاحات بل کی منظوری میں تاخیر سے دہشت گردی بڑھے گی، عمران خان
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کو پارلیمان کو ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ وقت عملی اقدامات کرنے کا ہے، انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 1 کے تحت فاٹا پاکستان کا حصہ ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ وقت ضائع کیے بغیر جلد از جلد فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام کا اعلان کرے۔
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت پہلے ہی اس جانب اشارہ کر رہی تھی کہ فوج فاٹا اصلاحات کے خلاف ہے لیکن اب آرمی چیف کے قبائلی علاقوں کے ریفارمز کی حمایت پر دیے گئے بیان کے بعد فاٹا اصلاحات میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت فاٹا ریفارمز نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور کسی کو یہ حق چھینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ خبر 15 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں