• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

عامر لیاقت کو کسی بھی چینل پر تاحکم ثانی پروگرام، تجزیہ دینے سے روک دیا گیا

شائع December 13, 2017

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تاحکم ثانی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو کسی بھی چینل پر پروگرام کرنے اور تجزیہ دینے سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں سابق وزیر اور معروف ٹی وی اینکر پر نفر ت آمیز مواد پر مشتمل پروگرام اور معاشرے میں تفرقہ پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پر تاحیات پابندی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی جبکہ درخواست گزار محمد عباس کی جانب سے بیرسٹر شعیب رزاق عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نام نہاد عالمِ دین ہیں اور ان کے پاس اسلامی تعلیمات کی کوئی مستند ڈگری موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: پابندی کے باوجود عامر لیاقت بول نیوز پر آن ایئر

بیرسٹر شعیب رزاق نے کہا کہ عالم آن لائن کے ذریعے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کئی برس سے معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی منافرت پھیلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت حسین اپنے پروگرام میں کفر اور غداری کے فتوے لگاتے ہیں اور ان کے فتوؤں سے کئی لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ عامر لیاقت حسین ذہنی طو ر پر بیمار ہیں اور اپنے پروگرام اور تجزیوں کے ذریعے وہ پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ پیمرا اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ عامر لیاقت حسین کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بول نیوز کی عامر لیاقت کا پروگرام نشر نہ کرنے کی یقین دہانی

انہوں نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو سوشل میڈیا پر عامر لیاقت حسین کے تمام اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل کا موقف سننے کے بعد تاحکم ثانی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو کسی بھی چینل پر پروگرام کرنے اور تجزیہ دینے سے روکنے کا حکم دے دیا۔

عدالتِ عالیہ نے درخواست پر وفاقی حکومت، پیمرا، پی ٹی اے اور عامر لیاقت حسین سے جواب طلب کرلیا اور سماعت 10 جنوری 2018 تک کے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ ماضی میں بھی اینکر پرسن عامر لیاقت حسین اپنے ٹاک شوز کی وجہ سے پاکستانی میڈیا میں تنازعات کا شکار رہے۔

مزید پڑھیں: عامر لیاقت کیخلاف ’ہتک آمیز‘ مہم چلانے کی شکایت

گزشتہ برس جون میں پیمرا کی جانب سے عامر لیاقت حسین کی میزبانی میں نشر ہونے والے جیو ٹیلی ویژن کے پروگرام ’انعام گھر‘ پر تین روز کے لیے عارضی پابندی عائد کر دی تھی۔

بعدِ ازاں عامر لیاقت حسین بول نیوز سے منسل ہوگئے تھے جہاں وہ ایک ٹاک شو ’ایسے نہیں چلے گا‘ کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔

اپنے اس پروگرام میں عامر لیاقت نے جیو ٹیلی ویژن، اس کی انتظامیہ اور مالکان پر الزامات عائد کیے جس کے بعد پیمرا نے اس پروگرام کو نشر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

پیمرا کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عامر لیاقت حسین اور ان کے پروگرام پر یہ پابندی پیمرا (ترمیمی) ایکٹ 2007 کی دفعہ 27 کے تحت عائد کی گئی ہے تاہم اگر نیوز چینل اس فیصلے کا اطلاق نہیں کرتا تو چینل کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بول ٹی وی پرجرمانہ عائد کیاجائے، پیمرا شکایتی کونسل کی سفارش

تاہم کچھ ماہ بعد عامر لیاقت ایک مرتبہ پھر مذکورہ پروگرام کی میزبانی کرتے دکھائی دیئے۔

گزشتہ ماہ عامر لیاقت حسین نے بول ٹی وی نیٹ ورک سے ایک سال سے بھی کم عرصہ وابستہ رہنے کے بعد اس سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔

عامر لیاقت حسین نے بول سے علیحدگی کا اعلان اپنی ایک ٹوئیٹ کے ذریعے کیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’ان کا سفر ختم ہوگیا، لیکن یہ سفر دوستانہ طریقے سے ختم نہیں ہوا، میں اب بول کا حصہ نہیں ہوں، میرا معاوضہ ان پر واجب الادا ہے‘۔

بول ٹی وی نے عامر لیاقت حسین کے اس عمل کو غیر پیشہ ورانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ادارہ عامر لیاقت حسین کے اعلان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

عامر لیات نے بول ٹی وی سے استعفے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے ان تمام افراد سے معافی مانگی جن پر انہوں نے اپنے پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

عمر بشیر Dec 13, 2017 03:12pm
کسی بھی شخص پر اس طرح کی پابندی عائد کرنا ۔مجھے مناسب محسوسس نہیں ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حیسن کو ناظرین کی ایک بڑی تعداد پسند کرتی ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو صرف ایک درخواست پر ایک شخص پر پابندی عائد نہیں کرنی چاہے ۔ بلکہ اس پورے کیس کی سماعت کے بعد کوئی فصیلہ کرنا چاہے ، اگر اس طرح کی زبان بندی اور پروگرام بندی کی روایت قائم ہوگی ۔ تو ہر دوسرے دن کوئی کسی پروگرام کو بند کرنے کی دراخواست کردے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024