یاسر حمید: وہ ستارہ جو چمک نہ سکا
قائد اعظم ٹرافی میں فاٹا اور کراچی وائٹس کے درمیان میچ کے آخری دن کھانے کے وقفے پر ہوم ٹیم کراچی وائٹس کے خلاف فتح اور قائد اعظم ٹرافی میں تنزلی سے بچنے پر یاسر حمید اور ان کی ٹیم فاٹا کے کھلاڑی خوشی سے سرشار تھے۔ فاٹا کے ڈریسنگ روم میں جشن کا سا سماں تھا۔
اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ چند سیلفیز اور تیزی سے کھانا تناول فرمانے کے بعد ٹیسٹ کرکٹر یاسر حمید اپنے کیریئر میں ہونے والے اتار چڑھاؤ پر بات کیلئے 'ڈان میگزین' کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ ان کا کیریئر کسی معمے سے کم نہیں۔ یاسر حمید نے 2003 میں بنگلہ دیش کے خلاف ڈیبیو کرتے ہوئے دونوں اننگز میں سنچری کر کے اپنے کیریئر کا اس انداز میں آغاز کیا جس کا کوئی کھلاڑی محض خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔ اپنے اسٹائلش شاٹس نے انہوں نے شائقین کرکٹ کو چونکا کر رکھ دیا لیکن وہ ڈیبیو پر دکھائی گئی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ سلیکٹرز نے 25 ٹیسٹ اور 56 ون ڈے میچوں تک ان پر اعتماد برقرار رکھا لیکن مستقل ناقص کارکردگی کی بنا پر انہیں 2010 میں قومی اسکواڈ سے ڈراپ کردیا گیا اور اس کے بعد سے وہ قومی ٹیم سے باہر ہیں۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ یاسر حمید کو اسکواڈ سے ڈراپ کرنے کی وجوہات خالصتاً کرکٹ پر مبنی نہیں تھیں تاہم ٹیسٹ کرکٹر نے اس معاملے پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ 'دراصل اس طرح کی قیاس آرائیاں اس وقت جنم لیتی ہیں جب آپ سے بڑے اسکور کی توقعات وابستہ کی جائیں لیکن آپ ایسا کرنے میں ناکام رہیں۔ میں 30 سے 35 رنز کر رہا تھا اور اسے بڑے اسکور میں تبدیل نہیں کر پا رہا تھا۔ اس وقت میں اپنی خراب فارم سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔ سچ یہ ہے کہ میں دوسروں کی طرح کسی کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہراؤں گا جو ٹیم سے اپنے اخراج کا ذمے دار پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹھہراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہاں، انتہائی باصلاحیت ہونے کے باوجود طویل عرصے تک کارکردگی نہ دکھانے پر میں بہت زیادہ مایوس ضرور تھا۔
لیکن اس موقع پر بھی وہ اچھے دنوں کا تذکرہ کرنا نہیں تھا اور ہمیں اس لمحے کے بارے میں بتایا جس نے انہیں کرکٹر بننے کی ترغیب دی۔
'جب پاکستان نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تو اس وقت میں بڑا ہو رہا تھا۔ یہ فتح میرے لیے کرکٹ کھیلنے کی ترغیب بن گئی اور عمران خان میرے رول ماڈل بن گئے۔ اپنے ستاروں کو ایکشن میں دیکھنے سے مجھے کرکٹر بننے اور پاکستان کی نمائندگی کرنے کی تحریک ملی۔
کرکٹ میں اپنے پسندیدہ ستاروں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں جب بڑا ہو رہا تھا تو انتہائی غور سے سعید انور، انضمام الحق، اعجاز احمد اور عامر سہیل کی بیٹنگ کا مشاہدہ کرتا تھا لیکن اپنے سب سے پسندیدہ بلے باز کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا مشکل ہے۔
'میں چار نام لوں گا: سعید انور، انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان'۔ آپ کا اپنے کیریئر کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اس سوال پر یاسر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے کیریئر میں چند اچھی اننگز کھیلیں۔ بھارت کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں 91 رنز بنانے کے بعد اسی ٹیم کے خلاف پشاور میں کھیلے گئے ون ڈے میچ میں 98 رنز کی باری کھیلی، نیوزی لینڈ کے خلاف راولپنڈی میں 127 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی لیکن ڈیبیو پر سنچری میری سب سے پسندیدہ اننگز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم سے میری خاص وابستگی ہے۔ جب میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کیلئے کھیلا کرتا تھا تو یہ ہمارا ہوم گراؤنڈ تھا۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی دور میں یہاں بہت کرکٹ کھیلی اور ہزاروں رنز بنائے۔ میں اسے پاکستان کے بہترین اسٹیڈیمز میں سے ایک سمجتا ہوں اور یہ بالکل شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔
جب ان سے قائد اعظم ٹرافی کے حالیہ سیزن میں کارکردگی اور وکٹوں کے ساتھ ساتھ رواں سیزن استعمال ہونے والی گیند کے بارے میں سوال کیا گیا تو دائیں ہاتھ کے بلے باز کا کہنا تھا کہ یہ فرسٹ کلاس سیزن اچھا رہا، میں نے چھ میچوں میں 428 رنز بنائے جس میں 157 رنز کی اننگز بھی شامل ہے۔ میں نے اب تک جتنے بھی سیزن کھیلے ہیں، اس میں رواں سیزن استعمال ہونے والی 'ڈیوک گیند' سب سے بہترین ہے کیونکہ اس کی شکل خراب نہیں ہوتی اور دیر تک چمک برقرار رہتی ہے جبکہ اس کے برعکس مقامی طور پر تیار ہونے والی کوکابورا گیند کی شکل 15 سے 20 اوورز کے بعد شکل بگڑ جاتی ہے۔
یاسر حمید نے کا ماننا ہے کہ ہری بھری وکٹ پر بھی صرف ایک باصلاحیت باؤلر ہی 'ڈیوک گیند' سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالانکہ میں ایک بلے باز ہوں لیکن اس کے باوجود مجھے یہ گیند بہت پسند آئی۔ اس سیزن تقریباً تمام ہی وکٹیں نئی تیار کی گئی ہیں اور انہیں اپنی صحیح جگہ پر آنے میں وقت لگے گا۔ اس کی بنیاد ابھی صحیح طرح نہیں بیٹھی لہٰذا اس میں ایک سے دو سیزن لگیں گے۔ ہمارے بلے بازوں کو خصوصاً لاہور کے ایل سی سی اے گراؤنڈ میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جہاں باؤنس غیریقینی تھا لیکن ہم پھر بھی کسی طرح اس وکٹ پر کھیلنے میں کامیاب رہے۔
2004-05 میں قومی ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کے موقع پر سڈنی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں انہوں نے نصف سچریاں اسکور کی تھیں۔
'اس وقت آسٹریلین باؤلنگ انتہائی اعلیٰ پائے کی اور دنیا میں سب سے بہترین تھی جس میں گلین میک گرا، جیسن گلیسپی، شین وارن اور میک گل شامل تھے۔ ہم نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ وکٹ میں نمی کو دیکھتے ہوئے یہ بہت ہی دلیرانہ فیصلہ تھا۔ دونوں نصف سنچریاں انتہائی یادگار ہیں، حالانکہ ہم وہ میچ ہار گئے لیکن مذکورہ ٹیسٹ میچ میرے لیے بہت خاص ہے۔
جب ان سے اپنے سب سے یادگار دورے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے 2005 کے دورہ بھارت کو سب سے یادگار قرار دیا۔
'ہم نے بنگلورو میں ہونے والا تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ جیت کر سیریز برابر کی۔ میں یونس خان اور شاہد آفریدی سے بہت قریب تھا اور اس وقت شعیب ملک سے بھی بہت اچھی دوستی تھی۔ ہمارے کپتان 'انضی بھائی' کا ہم پر بہت گہرا اثر تھا۔ ان کے فیلڈ سے باہر لائف اسٹائل کا انفرادی اور اجتماعی حیثتیت میں ہم سب پر بہت مثبت اثرا پڑا۔
اس جواب نے مجھے ان کے ٹیم سے اخراج کی وجہ پوچھنے کی تحریک دی اور میں نے پوچھا کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ٹیم میں موجود چند کھلاڑیوں نے ان کیلئے مشکلات کھڑی کیں؟۔
'نہیں، بالکل بھی نہیں۔ میرے اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے بہت اچھے مراسم تھے اور ہم ساتھ میں بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ دیکھیں جب ایک شخص فارم میں نہیں ہوتا تو مثبت چیزیں بھی منفی بن جاتی ہیں اور جب ہم اچھا کرتے ہیں اور اپنی ٹیم کیلئے میچز جیت رہے ہوتے ہیں تو کوئی بھی ایسی چیزوں کا تذکرہ نہیں کرتا۔ ایک عرصہ گزرنے کے باوجود یاسر حمید اب بھی قومی ٹیم میں واپسی کیلئے پرامید ہیں۔
'میں رواں سیزن اپنی کارکردگی سے خوش ہوں۔ اگر مجھے قومی ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے تو میرا ماننا ہے کہ میں بہتر طریقے سے کارکردگی دکھا سکوں گا اور اس مرتبہ موقع ضائع نہیں کروں گا۔ تاہم کھیلنے کے ساتھ ساتھ کیریئر کے اختتام پر یاسر حمید کرکٹ سے منسلک دیگر کام بھی سرانجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کرکٹ کے تجزیے، کوچنگ اور مینجمنٹ میں گہری دلچسپی ہے۔ درحقیقت کرکٹ سے منسلک کوئی بھی چیز مجھے بہت پسند ہے۔