کٹاس راج رو رہا ہے مگر ہم اسے بچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
پوٹھو ہار کے علاقے کلر کہار سے چواسیدن شاہ کی طرف جائیں تو راستے میں کٹاس راج کے مندر آتے ہیں۔ ان مندروں کا شمار ہندو مذہب کے مقدس ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ پنجاب کے ضلع چکوال کی تحصیل چواسیدن شاہ کی گھومتی پہاڑی پر ایستادہ یہ مندر دور ہی سے نظر آجاتے ہیں۔ اب یہ بات اور ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے از خود نوٹس اور پھر اس کے بعد تاریخ پر تاریخ نے ان مندروں کی تاریخی اہمیت کو یوں اجاگر کیا کہ مسافر نکلے تیری تلاش میں۔
کہتے ہیں انسان کے تاریخ کی جانب سفر سے ہمیشہ علم و آ گہی کے چشمے پھوٹتے ہیں مگر ہمارا آج کا سفر ایک ایسے چشمے کی جانب تھا جو صدیوں پہلے پھوٹا مگر اب حالات کی بے رحمی کا شکار ہے۔
کٹاس راج کے مندروں کا سنگ بنیاد محبت کی ایک کہانی نے رکھا۔ یوں کٹاس راج محبت کی کہانی ہے، محبت جو کئی زمانوں کا سفر طے کرتی عقیدت میں بدل گئی۔ ہندو عقیدے کے مطابق کوئی 2300 برس ہونے کو آئے جب ہندو دیوتا شیو جی، اپنی محبوب بیوی سیتا کی موت پر ٹوٹ کر روئے اور پھر ایک لافانی داستان وجود میں آئی۔
کٹاس راج کے مقامی گائیڈ شکیل احمد نے بتایا "ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب شیو بھگوان کی بیوی ستی کی موت ہوگئی تو شیو دیوتا روئے۔ ان کے رونے سے جو دو آنسو گرے اس سے دو مقدس چشمے پھوٹے۔ ایک ہندوستان میں پشکو راج کا چشمہ، جو اجمیر میں ہے راجستھان کے قریب۔ اور دوسرا یہ کٹاس راج۔"
ایک طرف ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہابھارت میں ذکر تو دوسری جانب طاقتور دیوتا شیو جی کی قربت نے کٹاس راج کے اس چشمے کو ہندوؤں کے مقدس ترین مذہبی مقامات میں سے ایک بنا دیا۔ جبھی تو صدیوں سے کئی ہندو عقیدت مند ان مقدس پانیوں سے اشنان کر کے شانتی حاصل کرتے ہیں۔
ہندو لوگ یہاں آتے ہیں تو وہ اس پانی میں نہاتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق جو ہندو اس پانی میں اشنان کرلے وہ پوتر ہوجاتا ہے۔ محبت سے عقیدت کے سفر کو برسوں لگے مگر معیشت کے سفر نے صرف چند ہی برسوں میں مقدس روحوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ گزرے دس برسوں میں علاقے میں تیزی سے لگنے والی سیمنٹ فیکٹریوں نے اس چشمے سے دیوتا کے آنسو خشک کر ڈالے۔
یہ تالاب پہلے پانی سے بھرا ہوا تھا لیکن اب اس میں پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ نیچے جانے کی مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک مقامی شخص ضمیر احمد کا کہنا تھا "یہ پانی بہت اونچے لیول سے یہاں پر بہہ رہا تھا، لیکن جب سے یہ سیمنٹ فیکٹریز ہمارے ساتھ لگی ہیں، اس میں بہت بہت بڑی مشینری لگی ہوئی ہے جو پانی کھینچ رہی ہے یہاں سے۔"
ہندو عقیدت مند ہر سال اس مقدس تالاب کی زیارت کے لیے آیا کرتے ہیں۔ مگر گزرے برس یہاں سے بے مراد واپس لوٹنے والے، آنے والوں کو شاید ضرور کہہ رہے ہوں گے کہ کٹاس راج مر رہا ہے۔ اب ہم کیسے پوتر ہوں گے؟
کٹاس راج مندروں کی سیر کو آئے ہوئی ایک طالبہ نے بتایا "یہاں پر پہلے کافی زائرین آتے تھے، یہ ان کی ایک عبادت کی جگہ ہے اور وہ عبادت کرتے ہیں لیکن اب کچھ ٹور ازم کم ہوا ہے۔ لوگوں کا رجحان تھوڑا سا اس وجہ سے بھی کم ہوگیا ہے کہ اس مقدس چشمے میں پانی اب کم آتا ہے۔"
وہ جھیل جو کبھی عقیدت مندوں کو بے تاب اور کئی علاقوں کو سیراب کرتی تھی، آج خشک ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سیمنٹ فیکٹریاں ہیں یا کچھ اور۔ مگر کٹاس راج رو رہا ہے۔ کٹاس راج کے آنسو کون پونچھے گا؟
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے یکم نومبر کو کٹاس راج کے مقدس چشمے کے خشک ہونے کا نوٹس میڈیا اطلاعات پر لیا تھا۔ چشمے کے خشک ہونے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈپٹی کمشنر چکوال کو تین دن کے اندر رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عمر جہانگیر نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں چشمے کے خشک ہونے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کٹاس راج کے چشمے کے خشک ہونے اور علاقے میں پانی کی سطح گرنے کی بنیادی وجہ سیمنٹ فیکٹریاں ہیں لیکن فیکٹریوں کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی، علاقے کے لوگوں کی طرف سے پانی کا بے دریغ استعمال اور کوئلے کی کانیں بھی ہیں۔
کٹاس راج کی مقامی آبادی کے مطابق، سیمنٹ فیکٹریاں بہت زیادہ پانی استعمال کر رہی ہیں، ان کے 14 ٹیوب ویل فعال ہیں جبکہ انہوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیر زمین پانی کے حصول کے لیے 100 سے زائد واٹر بورنگ بھی کروا رکھی ہیں۔
دیوتا کے آنسووں سے وجود میں آنے والے تالاب کو انسان نے خوشیوں کی تلاش میں خشک کر دیا ہے۔ دیوتا کے دکھ پالنے اور انسان کے سکھ پانے کی یہ کہانی شاید اس وقت تک سنائی جاتی رہے گی جب تک حضرت انسان اپنے گناہوں کا کفارہ نہیں ادا کرلیتا۔
عدالتِ عظمیٰ کے جگانے پر پنجاب حکومت اور متروکہ وقف املاک بورڈ کی آنکھ کھلی بھی تو ایسے کہ انہوں نے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے برسوں سے پھوٹتے قدرتی چشمے میں پائپ لائن ڈال کر مانگے تانگے کے پانی سے بھرنا شروع کردیا ہے۔
دیوتا کی آنکھ سے آنسو گرا تو چشمہ ابل پڑا مگر وقت کی دھول اور انسان کی بھول نے یہ چشمہ، یہ تالاب خشک کردیا۔ اب اس تالاب کو دوبارہ بھرنے کے لیے نجانے کتنے ہی آنسو بہانا پڑیں گے۔ مگر ہمارا کام تو بچ جانے والے پانیوں میں ارتعاش کے لیے کنکر پھینکتے رہنا ہے۔