یروشلم اسرائیل کا ’دارالحکومت‘:’وجہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات ہیں‘
اسلام آباد: ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے سے متعلق تجزیہ کار کامران بخاری کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات ہیں جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے بیان دینے کا مطلب ہے کہ ہم سے اس سے زیادہ توقع نہ رکھی جائے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں بات کرتے ہوئے کامران بخاری نے کہا کہ ’اسرائیل اور فلسطین کی بات چیت کے بغیر یروشلم کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا، اس لیے یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یکطرفہ بیان ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے پر تمام بڑے مسلم ممالک کی جانب سے غم و غصے کا اظہار اور بیانات دیئے گئے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاملے پر تمام مسلم ممالک کیا کریں گے؟‘
مزید پڑھیں: بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلہ، دہائیوں پرانے تنازع نے پھر سر اٹھالیا
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور سعودی عرب کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا گیا ہے۔‘
کامران بخاری نے کہا کہ ’اس واقعے کی وجہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات ہیں، موجودہ حالات میں مسلم سربراہاں جتنی بھی ملاقاتیں کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہے، جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے بیان دینے کا مطلب ہے کہ ہم سے اس سے زیادہ توقع نہ رکھی جائے۔‘
’مسلم ممالک کا ردعمل مصنوعی‘
اس معاملے پر مزید بات کرتے ہوئے تجزیہ کار باقر سجاد نے کہا کہ ’اس معاملے پر مسلم ممالک کی جانب سے دیئے جانے والا ردعمل مصنوعی ہے، تاکہ وہ اپنے ملک میں بسنے والے عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کر سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس فیصلے کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کوئی خاص فائدہ نہیں ملے گا، یہ فیصلہ ان کے انتخابی منشور کا حصہ تھا، اگر مشرق وسطیٰ میں حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ امریکا کے حق میں اس لیے اچھا نہیں کیونکہ اس سے مسلم دنیا میں امریکا مخالف جذبات کو مزید تقویت ملے گی۔‘
یہ بھی پڑھیں: ’امریکا کا فیصلہ ناجائز اور غیرذمہ دارانہ عمل‘
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ روز مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم ان کا یہ اقدام بین الاقوامی اتفاق رائے کے خلاف تصور کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے دہائیوں پرانہ تنازع ایک مرتبہ دوبارہ کھرا ہوگیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے اور اس شہر کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔