پورٹ قاسم پر نیا ایل این جی ٹرمنل تکنیکی خرابی کا شکار
کراچی: پورٹ قاسم پربننے والے پاکستان کے دوسرے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) ری فلنگ گیس ٹرمنل اپنے آغاز کے دو ہفتے بعد ہی تکنیکی خرابی کا شکار ہوگیا، زیر زمین پائپ لائن میں تکنیکی خرابی کے باعث سسٹم میں دوبارہ گیس شامل نہیں کی جاسکی۔
واضح رہے کہ اس ٹرمنل کا افتتاح وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 20 نومبر دورہ کراچی کے موقع پر کیا تھا۔
صنعتی ذرائع نے اس حوالے میں ڈان کو بتایا کہ یہ خرابی آئندہ چند ہفتوں تک لائن اپ کارگوز کی منسوخی کا باعث بنے گی۔
خیال رہے کہ جس وقت زیر آب موجود پائپ لائن میں خرابی پیش آئی، اس وقت دو ایل این جی سے بھرے جہاز پورٹ پر فلوٹنگ اسٹوریج اینڈ ری گیسیفیکشن یونٹ (ایف ایس آر یو) میں منتقل کیے جانے کے منتظر تھے۔
مزید پڑھیں: آئندہ برس معیشت کی شرح نمو 6 فیصد تک بڑھنے کا امکان
اندرونی ذرائع کا کہا ہے کہ یہ خرابی پائپ لائن کے نظام، ایف ایس آر یو اور اس سے منسلک انفرااسٹرکچر کے معیار پرسوالیہ نشان پیدا کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ابتدائی ٹیسٹنگ کم از کم 50 فیصد زیادہ دباؤ یعنی 1500 پونڈ فی مربع انچ ( پی ایس آئی) سے زیادہ ہونی چاہیے جبکہ اس پائپ لائن کو 1000 پی ایس آئی سے کم پر اس خرابی کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسرا ایل این جی ٹرمنل پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ (پی جی پی ایل) کے ایک کنسورشیم کے تحت تیار کیا گیا ہے، اس حوالے سے جب پی جی پی ایل کے ترجمان اور ڈائریکٹر فصیح احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے فون کال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اس بارے میں پی جی پی ایل اور ایف ایس آر یو کے قریبی کام کرنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ گیس لیک کا واقعہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس کے لیے ہنگامی میکانزم تیار کیا جانا چاہیے تھا، انہوں نے کہا کہ اس مرحلے تک پہنچنے میں کم سے کم 10 سے 15 دن درکار ہوں گے، جس کے بعد گیس پریشر کو دوبارہ بحال کیا جاسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے سے بہت سی دیگر شپمنٹ بھی منسوخ، معطل یا دوسری جانب بھی موڑا جاسکتا ہے، جس کے لیے متعلقہ حکام نے سپلائر کے ساتھ طویل مدتی تعلقات کے مفاد کے لیے قابل قبول طریقے سے بات کرنی ہوگی، دوسری جانب موسم سرما میں گیس کی طلب میں اضافے کے دوران گیس کی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے جبکہ پنجاب کے بہت سے اضلاع پہلے ہی گیس پریشر کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم نے 20 نومبر کو ری گیسیفکیشن یونٹ کا افتتاح کیا تھا، جو پہلے ہی 6 مہینے تاخیر کا شکار ہوچکا تھا، پی جی پی ایل اور ریاستی اداروں کے درمیان اس معاملے پر اختلاف بھی تھے، اس کے باوجود وزیر اعظم نے پی جی پی ایل کی پوزیشن کی حمایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں اضافی توانائی موجود ہے: وزیر اعظم
واضح رہے کہ دوسرے ٹرمنل سے ایل این جی کی ترسیل کے امکان کے بعد پنجاب میں بھیکی، بالوکی اور حویلی بہادر شاہ میں ہر ایک مقام پر 1200 میگا واٹ ایل این جی کے پاور پلانٹ قائم کیے جانے کا امکان ہے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے کے مطابق تجارتی آپریشن کی تاریخ (سی او ڈی) 30 جون ہے تاہم یہ ابھی تک سرکاری طور پر مقرر نہیں ہے اور اس میں مزید تاخیر بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے خود سی او ڈی میں ستمبر تک تاخیر کی اجازت دی ہے۔
معاہدے کے مطابق دوسرے ٹرمنل کا ٹھیکیدار 30 جون کے بعد ہونے والی تاخیر پر ہونے والے نقصان کے یومیہ تقریباً 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر دینے کا ذمہ دار ہوگا۔
یہ خبر 07 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی