حلقہ بندی معاملہ: مطالبات کی منظوری تک حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے، پی پی پی
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مردم شماری نتائج کے 5 فیصد بلاکس میں تھرڈ پارٹی آڈٹ کے طریقہ کار کا مطالبہ پورا ہونے تک حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر تاج حیدر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی چاند نہیں مانگ رہے، ہمارے مطالبات واضح ہیں جس کا مقصد شفافیت کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے تو پیپلزپارٹی 11 دسمبر کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں آئینی ترمیمی بل کو منظور نہیں ہونے دے گی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم اور عارضی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں حلقہ بندیوں سے متعلق یہ بل قومی اسمبلی سے پہلے ہی منظور ہوچکا ہے۔
مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کے تحفظات دور نہ ہوسکے
خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 51 کی شق 5 کے مطابق تمام صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی (فاٹا) اور وفاقی دارالحکومت میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر گزشتہ مردم شماری کے سرکاری نتائج کی روشنی میں کی جاتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ آئندہ عام انتخابات 2018 میں منعقد ہونے چاہئیں جبکہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں تبدیلی کیے بغیر 2017 کی مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں ان کی تقسیم ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ موجودہ نشستوں کے مطابق قومی اسمبلی میں عام نشستیں 272 ، خواتین کی 60 اور 12 فاٹا کی نشستیں شامل ہیں۔
مجوزہ تقسیم کے مطابق جہاں نشستوں کی تقسیم میں اضافہ ہوگا اس میں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد شامل ہیں، جس کے مطابق بلوچستان کی نشستوں میں 2 عام نشستیں اور ایک خواتین کی نشست، خیبر پختونخوا میں 4 عام اور ایک خواتین کی نشست اور وفاقی دارالحکومت میں ایک عام نشست بڑھائی جائیں گی جبکہ پنجاب میں سے 7 عام اور 2 خواتین کی نشستیں کم کی جائیں گی، اس کے علاوہ سندھ کی نشستوں کی تعداد برقرار رہے گی۔
سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ 2017 میں مردم شماری میں استعمال ہونے والے ناقص طریقہ کار کو 5 فیصد مخصوص بلاک کے پوسٹ شمار سروے ( پی ای ایس) میں استعمال کیا گیا تو نتائج ایک بار بھی متنازع ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں حقوق کا دعویٰ کرنے والے طریقہ کار کا استعمال کیا گیا اور اس کے تحت ہی لوگوں کا اندراج ان کے رہائشی صوبے میں نہیں بلکہ آبائی صوبے میں کیا گیا۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے دوران غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو بھی شمار نہیں کیا گیا جو صوبوں پر ایک بڑا بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق رہائشیوں کو موجودہ رہائش کی جگہ پر شمار کیا جاتا ہے اور یہی آبادی کو صحیح تعداد میں ریکارڈ کرنے کا واحد طریقہ کار ہے اور اسے 5 فیصد بلاکس کے پی ایس سی میں استعمال کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل منظور
انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کو ریکارڈ کرنے اور اسے آن لائن کنٹرولنگ دفاتر بھیجنے کے لیے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ٹیمپلیٹ استعمال کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ یہ قابل واپسی ٹیمپلیٹ اقوام متحدہ کے آبادی فنڈز سے مفت میں فراہم کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے صوبائی حکومتوں کو ڈیٹا آن لائن منتقل کیا جانا چاہیے۔
سینیٹر تاج حیدر نے مطالبہ کیا کہ باہمی طور پر ایک مردم شماری کمیشن تشکیل دیا جائے، جس میں پی ای سی کی نگرانی کرنے کے لیے تسلیم شدہ ڈیموگرافرز شامل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ شماریات (پی بی ایس) کو اس کمیشن کو صرف لوجسٹکس اور انتظامی سروس فراہم کرنی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ پی بی ایس نے 2011 میں گھروں کی گنتی میں 4 ارب ڈالر ضائع کرنے کے بعد تقریباً 18 ارب روپے 2017 کی متنازع مردم شماری میں ضائع کیے اور وہ مسلسل اپنے ناکام طریقہ کار اور متنازعہ مردم شماری کی وضاحت دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تسلیم شدہ اور باہمی اتفاق رکھنے والے ڈیموگرافرز کا کمیشن ہی عوام کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے۔
آرمی کا کردار
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جنرل(ر) عبد القیوم نے اس حوالے سے رابطہ کرنے پر کہا کہ تمام جماعتوں کو اس بل کی سینیٹ میں منظوری کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور سیاسی مفادات کے لیے جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
آڈٹ کے طریقہ کار میں فوج کا کردار نہ ہونے والے مطالبے پر انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے طریقہ کار میں فوج کے کردار پر کسی سیاسی جماعت کی جانب سے اختلاف نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں: پارلیمانی رہنماؤں کا حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیمی بل پر اتفاق
انہوں نے اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ مردم شماری میں تاخیر مطلوبہ تعداد میں فوجی دستوں کی عدم دستیابی کے باعث پیش آئی تھی اور اس بارے میں مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی) کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا جس پر کسی جماعت نے اعتراض نہیں کیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا نام لیے بغیر سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ جو لوگ پارلیمان کا حصہ نہیں انہیں بل کے معاملے میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے اور اپنے ارکان کو اجازت دینی چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن اراکین اس بل کی حمایت میں ووٹ ڈالنے سے گریز کرنے کے بجائے اس عمل کا حصہ بننا چاہیے، جس میں چاہے وہ بل کی حمایت میں ووٹ دیں یا پھر اس کی مخالفت میں ووٹ دیں۔
یہ خبر 06 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی