• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

عدالت کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم

شائع December 5, 2017

لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے اور اسے آئندہ 30 روز میں شائع کرنے کا حکم جاری کردیا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اس رپورٹ کو 30 روز میں شائع کیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کر دی جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ فریقین کو فراہم کرنے کا حکم جاری کیا۔

پنجاب حکومت کی جانب سے خواجہ حارث نے اپیل پر موقف اختیار کیا تھا کہ جسٹس علی باقر نجفی نے سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ خلاف قانون دیا اور اس حوالے سے پنجاب حکومت کو اپنے دلائل دینے کا موقع ہی نہیں فراہم کیا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق پنجاب حکومت کی درخواست پر ہی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا تاہم انکوائری ٹریبیونلز ایکٹ کے تحت کسی جوڈیشل انکوائری کو منظر عام پر لانا یا نہ لانے کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے اصل حقائق سے آگاہی کے لیے حکومت پنجاب نے جوڈیشل انکوائری کروائی تھی اور حکومت پنجاب اس انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانا نہیں چاہتی لہٰذا عدالت اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔

پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کا انکوائری رپورٹ پبلک نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور رپورٹ فراہم نہ کرنا معلومات تک رسائی کے قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرین جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف آپریشن کا حکم کس نے دیا جبکہ حکومت جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر نہ لا کر ملزمان کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ حکومتی انٹرا کورٹ اپیل توہین عدالت کی بنیاد پر ہی خارج کر دی جائے، پنجاب حکومت کا انکوائری رپورٹ پبلک نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

عدالتی حکم نامے کے مطابق انسدادِ دہشت گردی عدالت میں اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جو ٹرائل چل رہا ہے اس پر مذکورہ فیصلہ اثر انداز نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ ججز کے تجزیئے کیلئے پیش

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کے پاس اختیار تھا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری نہ کرواتی لیکن اگر حکومت نے ہائی کورٹ کے جج سے انکوائری کروا لی تو اس کی رپورٹ پبلک کرنا بھی ضروری ہے۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ انکوائری کے بعد حکومت یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جا سکتی اگر کسی سانحے سے متعلق انکوائری کی گئی ہے تو اس کو پبلک کرنے سے ہی لوگوں کو تسلی ہوگی۔

عدالتی فیصلے کے بعد ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ انصاف کی جانب اہم قدم ہے اور اب حکومت کے پاس رپورٹ شائع کرنے کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عدالت عالیہ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔

واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ غیر متعلقہ ہے'

بعدازاں حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کروائی، تاہم رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا، جس کا مطالبہ سانحے کے متاثرین کے ورثاء کی جانب سے متعدد مرتبہ کیا گیا۔

رواں برس اگست میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

ان افراد کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

مذکورہ درخواست پر سماعت کے بعد 21 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء اور زخمیوں کا حق ہے کہ انھیں اصل ذمہ داروں کا پتہ ہونا چاہیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔

پنجاب حکومت کی لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل

دوسری جانب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں جسٹس باقر نجفی انکوائری رپورٹ منظرعام پر لانے کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔

20 صفحات پر مشتمل انٹرا کورٹ اپیل میں شہداء کے بیس ورثاء کو فریق بنایا گیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سنگل بینچ نے حکومتی موقف پوری طرح نہیں سنا اور یکطرفہ فیصلہ دیا۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ انکوائری رپورٹ کے متعلق درخواستیں فل بینچ میں زیر التوا ہیں، لہذا سنگل بینچ فیصلہ نہیں کرسکتا۔

حکومت پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے بند کمرے میں پیش کردی تھی تاکہ ججز مذکورہ رپورٹ کا انفرادی جائزہ لے سکیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024