ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ ملتوی
عالمی طور پر مسلم ممالک کے شدید رد عمل کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے اور اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے کو ملتوی کردیا۔
وائٹ ہاوس کے ترجمان ہوگن گڈلے کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق امریکی صدر گزشتہ 48 گھنٹوں میں اتحادیوں کی جانب سے تنبیہ اور عالمی رہنماؤں کی نجی فون کالز کے بعد تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کے مقررہ وقت کی حتمی تاریخ سے قبل فیصلہ نہیں کریں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر نے اب تک اس معاملے میں اپنا حتمی فیصلہ نہیں دیا ہے تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کو مؤخر کر دیں گے۔
امریکی اندرونی سیاست نے امریکی صدر کو بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے زور دیا جس میں کنزرویٹو ووٹرز اور ڈونرز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: 'بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا ناقابل قبول ہے'
خیال رہے کہ بیت المقدس کا معاملہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی اہم وجہ سے کیونکہ دونوں ہی ممالک اسے اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔
دنیا بھر کے رہنماؤں اور امریکی اتحادیوں نے امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کے فیصلے پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور دہائیوں پرانی اس امریکی پالیسی پر عوامی انتباہ بھی سامنے آیا۔
فرانسیسی صدر ایمانول مائکرون نے امریکی صدر کو خبردار کیا کہ یروشلم کا فیصلہ ضرور ہونا چاہیے لیکن اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی مفاہمت کی روشنی میں ہونا چاہیے۔
وائٹ ہاؤس میں اندرونی اختلافات کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کے کئی حکام اپنے خواہش کے برعکس امریکی صدر کے فیصلے کا ساتھ دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس سے متعلق اسرائیل کے خلاف قرار داد پر ووٹنگ
مشرقی وسطیٰ میں امن سفیر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کا کہنا ہے کہ ’صدر ٹرمپ اپنا فیصلہ کرنے جارہے ہیں‘ جبکہ دوسری جانب اسرائیلی ویزر دفاع کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن خطے کے دیگر ممالک کے سامنے سے پیغامات آرہے ہیں کہ وہ ایسا نہ کریں۔
ترکی کے نائب وزیر اعظم باقر بوزداگ کا کہنا ہے کہ اگر بیت المقدس کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے اور اس حوالے سے ایک اور قدم اٹھایا جاتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی تباہی ہوگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ فیصلہ خطے میں تمام امن معاہدوں کو ختم کردے گا جس کے بعد اس خطے میں نئے تنازعات، لڑائیاں اور بد امنی شروع ہوجائے گی۔
تاہم اس حوالے سے جب امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر اہلکار سے امریکا کے اس ممکنہ اقدام کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ابھی بھی آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: فلسطین کے وزیر اعظم حماس سے مصالحت کیلئے غزہ پہنچ گئے
خیال رہے کہ دو روز قبل (3 دسمبر کو) فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کے فیصلے سے وائٹ ہاؤس خطے کے لیے امن کی کوششوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 3 دسمبر کو بیت المقدس کے حوالے سے ایک قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تھی، جس کے مطابق یروشلم میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا دباؤ اور طاقت کا استعمال غیر قانونی ہوگا اور اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ یہ قرارداد ان رپورٹس کے بعد پیش کی گئی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔