• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

تصدیق شدہ دستاویزات کے حامل کسی ترک شہری کو ملک بدر نہیں کیا، وزیر مملکت

شائع December 5, 2017

اسلام آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے اعتراف کیا ہے کہ ترک استادوں اور دیگر شہریوں کو ملک بدر کیے جانے پر پاکستانی حکومت کو ترکی کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر رحمٰن ملک کی صدارت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں وضاحت پیش کرتے ہوئے طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ تصدیق شدہ دستاویزات رکھنے والے کسی ایک بھی ترک استاد یا شہری کو ملک بدر نہیں کیا گیا۔

وزیر مملکت نے دعویٰ کیا کہ حکومت کو لاہور سے اغوا ہونے والے چار لاپتہ ترک شہریوں کے بارے میں کوئی علم نہیں۔

خیال رہے کہ 27 ستمبر کو ترکی کے شہری اور پاک-ترک اسکول سسٹم کے سابق نائب صدر میسوت کاجماز اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کے ہمراہ لاہور کے علاقے واپڈا ٹاؤن میں واقع اپنی رہائش گاہ سے اغوا کرلیے گئے تھے جس کا الزام مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جارہا تھا۔

مزید پڑھیں: پاک-ترک اسکول سسٹم کے سابق نائب صدر اہلِ خانہ سمیت 'اغوا'

لوگوں کا خیال تھا کہ ترک فیملی کو ملک بدر کرکے واپس ترک بھیج دیا گیا ہے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ترک اساتذہ اور شہریوں، جن کے پاس پاکستان میں رہائش اختیار کرنے کے لیے تصدیق شدہ دستاویزات موجود ہیں یا وہ جن کے پاس پناہ لینے کا سرٹیفکیٹ موجود ہے، کو ملک بدر نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں چار لاپتہ ترک شہریوں کے حوالے سے کچھ علم نہیں تاہم حکومت کو ترکی اور ان کے سفیر کی جانب سے پاک ترک اسکول کے معاملے میں دباؤ کا سامنا ہے۔

جوائنٹ سیکریٹری برائے وزارت داخلہ نے بتایا کہ 175 ترک شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ 219 اب بھی ملک میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ ترک خاندان کے چاروں افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا ہے اور پاک ترک اسکول اور کالجز کے انتظامی امور کا کنٹرول بھی ایک نئے ادارے کو دے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-ترک اسکولوں کا عدالت سے رجوع

کمیٹی نے حکام کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس نئے ادارے اور انتظامی امور کی منتقلی کے طریقہ کار کے حوالے سے مکمل تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں۔

خیال رہے کہ پاک-ترک اسکولز کا تعلق فتح اللہ گولن سے بتایا جاتا ہے جو ایک ترک عالم ہیں اور اس وقت امریکا میں مقیم ہیں، جن پر گذشتہ برس ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

فتح اللہ گولن، ترک صدر رجب طیب اردوگان کے سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں اور ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی نے گولن کے اسکولوں کے نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک 'حزمت' کہلاتی ہے، جو صوفی ازم کی طرز پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہے، اس تحریک کے تحت امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمات کے ادارے کام سرانجام دے رہے ہیں۔

پاکستان میں مقیم ترک شہریوں کا یہ معاملہ سینیٹر محمد علی خان سیف کی جانب سے سامنے لایا گیا تھا جن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کئی غیر ملکی افراد نے پناہ لے رکھی ہے جنہیں ان کے اپنے ملک میں ٹرائل کا خطرہ ہے۔

سینیٹر کا کہنا تھا کہ میڈیا میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی ترک افراد، جن کے پاس قانونی طور پر کام کرنے کا اجازت نامہ ہے، کو بغیر ٹرائل کا وقت دیئے ملک بدر کیا جاچکا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا میں فتح اللہ گولن کے اغوا کا ترک منصوبہ؟

اجلاس کے دوران سینیٹر محمد علی خان سیف وزیر مملکت اور وزارت داخلہ کی جانب سے دی گئی وضاحت پر غیر مطمئن رہے تاہم کمیٹی کے چیئرمین نے معاملے کو اگلے اجلاس تک کے لیے بحث کے لیے روک دیا۔

علاوہ ازیں وفاقی تحقیقات ادارے ایف آئی اے کے اجلاس کے شرکاء کو کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ملنے والی انکوائریز جن میں کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائیٹیز کی جانب سے بیچنے کے لیے دستیاب نہیں ہونے والے پلاٹ کی فروخت پر وضاحت پیش کی گئی۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے اجلاس میں بتایا کہ ملٹی پروفیشنل کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی ای-11، پاکستان میڈیکل کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی ای-11،جموں و کشمیر کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی جی-15 اور سون گارڈنز کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی زون-5 کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اسکولوں کے اساتذہ کی ملک بدری: سینیٹ نے جواب طلب کرلیا

کمیٹی میں پیش کیے گئے نئے کرمنل لاء ترمیم بل 2017 جس میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی حفاظت کا ذکر بھی ہے زیر بحث لایا گیا، جسے سینیٹر روبینہ خالد کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔

کمیٹی اراکین نے پشاور کے زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے دعا کا اہتمام بھی کیا گیا۔

کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو افغانستان لے جایا جائے کیونکہ دہشت گردوں کے سربراہ ملا فضل اللہ اور دیگر افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کروانے میں ملوث ہیں۔

شرکاء نے پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی کو مزید بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت پر الزام لگایا کہ ملک میں جاری دہشت گردی کے پیچھے بھارت ملوث ہے۔


یہ خبر 5 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024