'بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا ناقابل قبول ہے'
فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کے فیصلے سے وائٹ ہاؤس خطے کے لیے امن کی کوششوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔
سرکاری نیوز ایجنسی وفا کے مطابق محمود عباس کا کہنا تھا کہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافے کے طور پر قبول کرنا یا بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کے حوالے سے کوئی قدم سے 'خطے میں امن کے مستقبل کے لیے خطرات بڑھیں گی اور یہ ناقابل قبول ہے'۔
خیال رہے کہ امریکی عہدیداروں نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے یروشلم کو اسرائیل کے دارالخلافہ کے طور پر قبول کرسکتے ہیں جس سے امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے ان کے ممکنہ فیصلے کی تاخیر کا اثر زائل ہوگا۔
دوسری جانب اسرائیل بیت المقدس(یروشلم) کو اپنا دارالخلافہ قرار دیتا ہے لیکن عالمی برادری کا موقف ہے کہ شہر کی شناخت کا معاملہ امن مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے جبکہ فلطسین اسرائیل کے قبضے کو غیرقانونی قرار دیتا ہے۔
مزید پڑھیں:بیت المقدس سے متعلق اسرائیل کے خلاف قرار داد پر ووٹنگ
فلطسین بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ قرار دیتا ہے جہاں اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔
صدر محمود عباس سے قبل حماس کی جانب سے بھی امریکا کے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے اس کی مزاحمت کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم اس طرح کے اقدام کے حوالے سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر بیت المقدس سے متعلق کوئی ظالمانہ فیصلہ اپنایا گیا تو فلسطینی عوام سے انتفاضہ بحال کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
بعد ازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’یروشلم‘ یا بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا دباؤ اور طاقت کے استعمال کو غیر قانونی قرار دینے اور اس سے گریز کرنے کے حوالے سے اسرائیل مخالف قرار داد پیش کی گئی۔
یہ قرار داد ان رپورٹس کے بعد ہی پیش کی گئی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
اس قرار داد کے حق میں سب سے زیادہ 151 ریاستوں نے ووٹ دیا جبکہ 6 ریاستوں امریکا، کینیڈا، مائیکرونیزیا کی وفاقی ریاستوں، اسرائیل، جزائر مارشل، ناورو نے قرارد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
اس کے علاوہ 9 ریاستوں آسٹریلیا، کیمرون، وسطی جمہوری افریقہ، ہونڈراس، پاناما، پاپوا نیو گنی، پیراگوائے، جنوبی سوڈان اور ٹوگو نے قرارداد پر ووٹ دینے سے گریز کیا۔