پشاور: زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 9 افراد ہلاک
پشاور میں زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل پر مسلح دہشت گردوں کے حملے میں 9 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوگئے۔
حملے کے فوری بعد پاک فوج، فرنٹیئر کورپس (ایف سی) اور پولیس اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے پشاور کی زرعی یونیورسٹی کے سامنے ڈائریکٹوریٹ جنرل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر کی عمارت پر حملہ کیا تھا جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق حملے میں ملوث تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے جبکہ ڈائریکٹریٹ میں کلیئرنس آپریشن بھی مکمل کرلیا گیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران ان کے دو فوجی جوان زخمی بھی ہوئے تھے جنہیں سی ایم ایچ ہسپتال پشاور منتقل کردیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق شرپسند افغانستان میں اپنی قیادت کے ساتھ روابطے میں تھے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے برقع پہن رکھا تھا اور وہ زرعی ڈائریکٹریٹ میں داخل ہوئے جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ برآمد ہونے والے ہتھیاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔
حملے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے پاس سے 3 خودکش جیکٹس، 8 دستی، 2 آئی ای ڈیز بم، متعدد کلاشنکوف کے علاوہ دیگر دہشت گردی کا سامان بر آمد کیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں 16 زخمیوں کو لایا گیا تھا جن میں سے 3 زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔
دوسری جانب حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ڈائریکٹر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں 6 لاشیں اور 18 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔
حکام کے مطابق حملے میں یونیورسٹی کے چوکیدار اور طلبہ سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے۔
حملے کے عینی شاہد یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ڈان نیوز کو بتایا کہ عام دنوں میں ہاسٹل میں 400 کے قریب طالب علم موجود ہوتے ہیں لیکن آج عید میلاد النبی کی چھٹی کی وجہ سے صرف 150 طالب علم ہاسٹل میں موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب دہشت گرد ہاسٹل میں داخل ہوئے تو طالب علم انہیں دیکھ کر بھاگنے لگے جن میں سے کچھ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہوگئے جبکہ کچھ نے ہاسٹل کی کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔
حملے کے بعد ایگری کلچرل انسٹیٹیوٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا، جس کے بعد انسٹیٹیوٹ کے طلبہ سامان لے کر گھروں کو روانہ ہوگئے۔
دہشت گرد گرفتار کرنے کا انکشاف
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک زرعی ڈائریکٹوریٹ حملے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کے لیے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کا دورہ کیا۔
انہوں نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ دہشت گردوں کے ایک ساتھی کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے، جس سے تفتیش کی جارہی ہے۔
صوبائی پولیس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے، خیبر پختونخوا کی پولیس اب فورس بن چکی ہے جس کے بعد کئی دہشت گرد کارروائیاں روکی گئی ہیں۔‘
قبل ازیں پرویز خٹک کا ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’صوبے کی پولیس ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اچانک پیش آیا جس کے بعد پولیس نے فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ کر معاملات پر قابو پالیا۔
خیبر پختونخوا کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گرد بڑے حملے کے لیے تیاری کر کے آئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد کے بعد سے 80 فیصد دہشت گردی میں کمی آئی ہے جبکہ دہشت گرد آسان ہدف کو نشانہ بنا کر اپنی موجود گی کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے اور کسی بھی مشکوک شخص کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دینی چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پشاور حملے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ خیبر پختونخوا پولیس اور پاک فوج کی بر وقت کارروائی نے ملک کو بڑے نقصان سے بچالیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی خیبر پختونخوا کی پولیس فورس کے ریپڈ رسپونس یونٹ ایسے دہشت گردی کے واقعات سے بروقت نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ دھماکے اور فائرنگ: ڈپٹی کمشنر اور طالبات سمیت 23 افراد ہلاک
خیبر پختونخوا پولیس کے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) صلاح الدین محسود نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج کے واقعے میں 9 افراد شہید ہوئے ہیں جن میں 6 طلبہ ایک چوکیدار اور بقیہ دو عام شہری ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حملے میں ایک پولیس افسر جبکہ فوج کے دو جوان بھی زخمی ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ فورسز حملے کے بعد 5 منٹ میں جائے وقوع پر پہنچ چکی تھیں۔
خیال رہے کہ زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سوات گروپ نے قبول کرلی ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر صحت شہرام ترکئی نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ زخمیوں کو تمام تر طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ ہم زیادہ سے زیادہ زخمیوں کی جانوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاک فوج کے آپریشنز
یہ بھی یاد رہے کہ رواں برس 15 جون کو پاک فوج نے خیبر ایجنسی کے تمام علاقوں میں دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے آپریشن خیبر 4 کا آغاز کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور میں خود کش دھماکا، ایڈیشنل آئی جی اشرف نور شہید
ادھر رواں برس متعدد مرتبہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کیے جاتے رہے، جن میں کئی فوجی جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا تاہم ہر مرتبہ پاک فوج نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوابی کارروائی میں دشمن کو خاموش ہونے پر مجبور کیا۔
واضح رہے کہ 2014 میں آپریشن کے آغاز سے قبل فاٹا کی شمالی وزیرستان، خیبر اور اورکزئی ایجنسیز سمیت 7 ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔
خیبر پختونخوا اور فاٹا میں دہشتگردوں کے حملے
خیال رہے کہ رواں ہفتے 24 نومبر کو پشاور کے علاقے حیات آباد میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس ہیڈکوارٹر اشرف نور سمیت 2 افراد شہید ہوگئے تھے۔
یاد رہے کہ رواں سال 9 نومبر کو افغان سرحدی علاقے سے دہشت گردوں کی فاٹا میں خیبر ایجنسی کی وادی راجگال میں فائرنگ سے ایک فوجی جوان سپاہی محمد الیاس شہید ہوگیا تھا تاہم پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کو بروقت اور بھرپور جواب دیا گیا جس میں 5 دہشت گرد ہلاک اور 4 زخمی ہوئے۔
20 جنوری 2016 خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں واقع باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
اس سے قبل 16 دسمبر 2014 کو پشاورمیں واقع آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں نے حملہ کر کے طلباء اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مزید پڑھیں: پشاور اسکول حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک
آرمی پبلک اسکول حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔
15 جون 2013 کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بولان میڈیکل ہسپتال پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں متعدد بم دھماکوں اور اور فائرنگ کے باعث 14 طالبات سمیت 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
نیشنل ایکشن پلان
خیال رہے کہ 16 دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 145 سے زائد افراد کی اموات کے بعد حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ملک میں انسداد دہشت گردی کے خلاف اقدامات اٹھاتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ نیشنل ایکشن پلان کی رواں سال کی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس کے مطابق رواں سال جنوری سے اب تک دہشت گردی کے 432 واقعات ہوئے تاہم 2016 کی نسبت دہشت گردی کے واقعات میں27 فیصد کمی واقع ہوئی۔
تبصرے (1) بند ہیں