• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

فاطمہ میرا پہلا بچہ ہے جو آٹزم کا شکار ہے

شائع December 2, 2017

جب میں نے اُس کے پھولے پھولے گالوں پر پیار کا پہلا بوسہ ثبت کیا تو میرے پورے وجود میں شبنم جیسی ٹھنڈک اتر آئی، تخلیق کے تمام مراحل کی تکالیف میں اُسی لمحے بھول گئی جب اُس نے اپنی پُرکشش آنکھیں نیم وا کیں اور میری طرف دیکھا۔ اُس کے گلابی ہونٹوں پر بڑی دلنشین مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔ اُس کے چھوٹے اور نازک سے ہاتھوں کو میں نے اپنی انگلیوں میں تھام کر سینے سے لگا لیا۔

فاطمہ میرے خاندان کا پہلا بچہ تھی۔ پہلا بچہ سب کا راج دُلارا اورآنکھوں کا نور ہوتا ہے۔ اُس کی ہر ادا والدین کی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔ وہ کِس طرح مسکراتی تھی؟ اُس نے اپنی توتلی زبان میں کون سا پہلا لفظ ادا کیا تھا؟ وہ کیا کھانا پسند کرتی تھی؟ اُس نے پہلا قدم کب اور کِس طرح اٹھایا تھا؟ میں اور میرے شوہر بھی فاطمہ کی تمام سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اِن تمام باتوں کے باوجود ہم سے غفلت ہوئی اور ہم کئی ایسے چھوٹے چھوٹے اشاروں کو نظر انداز کرتے گئے جو کہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھے۔

فاطمہ کھلونوں سے کھیلنا پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ یا تو اِن کو اُٹھا کر اِدھر اُدھر پھینک دیتی یا پھر ایک قطار میں رکھتی جاتی۔

فاطمہ نظریں ملانے سے گریز کرتی تھی، بلکہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ آپ کو نظر انداز کر رہی ہے۔ وہ خود سے کبھی بات نہیں کرتی تھی۔ بچپن میں اس نے کیا پہننا ہے یا کیا کھانا ہے، اس کے بارے میں فیصلہ مشکل سے کیا جاتا تھا کیوں کہ فاطمہ کے لیے ابتدا میں یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ کیا چاہ رہی ہے۔

فاطمہ کا ایک اور مسئلہ اُس کے پاس الفاظ کا محدود ذخیرہ تھا۔ فاطمہ اپنے پسندیدہ کارٹون کے ڈائیلاگز تو تمام دہراتی تھی مگر اپنے ماں باپ اور گھر کے دیگر افراد سے بات نہیں کرتی تھی۔

اِن تمام عجیب رویوں کے باوجود ہم انتظار کرتے رہے کہ شاید یہ بول پڑے، تاہم آہستہ آہستہ ہمیں یہ احساس ہونا شروع ہوگیا تھا کہ فاطمہ عام بچوں کی طرح نہیں ہے۔ اسے نشونما کے سلسلے میں جن مسائل کا سامنا تھا، اُن کے حل کے لیے بالآخر ہم نے چلڈرن ہسپتال کا رُخ کیا۔

وہ دن ہماری زندگیوں کا ایک مشکل دن تھا جب فاطمہ کو چلڈرن ہسپتال میں ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد آٹزم (Autism) تشخیص کیا۔ جب ہم ہسپتال سے باہر نکلے تو آٹزم کے نام کے علاوہ ہمیں اِس کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہ تھیں۔ کیا کسی دوائی کی ضرورت ہوگی؟ کس قسم کی تھیراپی کی ضرورت پڑے گی؟ تھیراپسٹ کہاں سے تلاش کریں؟ ابتداء کہاں سے کریں؟ اور سب سے بڑی بات کہ کیا فاطمہ عام بچوں کی طرح زندگی گزار سکے گی؟

آٹزم کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ فاطمہ کو وہ تمام باتیں جنہیں عموماً بچے خود ہی سیکھ لیتے ہیں، محنت کر کے سکھانی ہوں گی۔ اِس لیے ابتداء سے ہی فاطمہ کو سکھانے کی کوشش کی گئی کہ اُس کا نام کیا ہے؟ سلام کرنا، ہاتھ ملانا، بھوک یا پیاس لگے تو اپنی ضرورت کا بتانا، رنگ، شکلیں، اسم صفت (Adjective)، حروف، فعل (verb)، حرفِ ربط (Preposition) اور آواز کے متعلق یعنی (Phonics) اور بہت کچھ۔ واش روم کے استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، برش کرنا اور صفائی کا خیال رکھنا وغیرہ۔ یہ سب باتیں ایک ایک کرکے فاطمہ کو سکھانی تھیں اور صبر کے ساتھ سکھانی تھیں کیوں کہ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ فاطمہ اِن چیزوں کو کتنے عرصے میں سیکھے گی اور کیا سیکھ کر یاد بھی رکھ پائے گی۔

پڑھیے: 'گھبراہٹ' کی وجوہات، علامات اور علاج

جہاں تک فاطمہ کے تھیراپسٹ کی بات ہے تو شروع میں ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ رویوں کی تھیراپی کے ماہر (Behavioral Therapists) جو سب سے پہلے فاطمہ کے لیے رکھے گئے۔ انہوں نے فاطمہ کے بارے میں یہاں تک کہا کہ چوں کہ فاطمہ کی تشخیص میں آپ نے کافی عرصہ ضائع کردیا ہے، چنانچہ ریکوری بہت مشکل ہے اور اگر فاطمہ اپنا نام سیکھ لے اور خود کھانا کھالے تو بھی بڑی بات ہوگی۔

اِسی طرح فاطمہ کے لیے جو بولنے کی تھیراپی کی ماہر (Speech Therapist) رکھی گئی، اسے چوں کہ خود بچوں کو مارنے کی عادت تھی چنانچہ فاطمہ نے مارنا سیکھ لیا۔ اگرچہ یہ بات چھوٹی یا غیر اہم محسوس ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آٹزم میں بچوں کو جس طرح کوئی بات سکھانا مشکل کام ہے اِسی طرح کسی بُری عادت کو ختم کرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ اہم بات یہاں پر یہ ہے کہ ابتداء میں فاطمہ کے لیے جو تھیراپسٹ رکھے گئے انہوں نے فاطمہ کی گھبراہٹ یا اینگزائٹی (Anxiety) اور جارحانہ رویے (Aggression) میں اضافہ تو کیا مگر اُس کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ پہنچایا۔

آٹزم کے بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے عموماً ہم کپڑوں، کھانے یا دیگر سرگرمیوں میں اپنی مرضی تھوپنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ آٹسٹک بچے سے یہ کہلوانا کہ وہ کیا پہننا یا کھانا چاہتا ہے مشکل کام ہے۔ اِس روش کی وجہ سے بچہ اپنی دنیا سے نکلنے کے بجائے مزید گہرائی میں اُتر جاتا ہے۔

لازمی ہے کہ ایک آٹسٹک بچے کو روزمرہ زندگی میں وہ تمام آپشن ملیں جو کہ اُسی عمر کے کسی بھی تمام بچے کو ملتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کے آٹسٹک بچے کافی ذہین ہوتے ہیں۔ ان کو پوری آگاہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیر دوسروں تک نہیں پہنچا پائے اور اِسی دقت کی وجہ سے اکثر اینگزائٹی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر والدین اِن بچوں کی اِس اینگزائٹی کو ختم کرنے کی طرف توجہ دیں تو بڑی آسانی سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

انہی تھیراپسٹ کے چُنگل میں پھنسے رہنے کے دوران ہم آٹزم کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہے۔ انٹرنیٹ پر موجود مواد نے فاطمہ کے مستقبل کے بارے میں کافی ڈھارس بندھائی کہ اگرچہ مکمل ریکوری تو شاید ممکن نہ ہو مگر بہت حد تک فاطمہ اپنے معاشرے کا فعال حصہ بن سکتی ہے۔

فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے بہت سے گروپس حصہ بن جانے سے فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے اداروں کا اور تھیراپسٹ کا علم ہوا۔ کچھ ادارے تو بہت مہنگے ہوتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ کم خرچ ہیں۔

پڑھیے: خصوصی بچوں کی سپر ہیرو مائیں

جہاں تک تھیراپسٹ کی بات ہے تو وہ عموماً 2000 روپے فی گھنٹہ سے 4000 روپے فی گھنٹہ تک چارج کرتے ہیں۔ تاہم اِن میں سے کئی آپ کو ڈسکاؤنٹ بھی دے دیتے ہیں۔ بہرحال یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آٹزم ایک بہت مہنگا علاج ہے۔

فاطمہ کی تھیراپیز کے دوران ہمیں کئی والدین سے ملنے کا بھی موقع ملا جن کے بچے اِس سنڈروم کا شکار تھے۔ اپنی پہلی ملاقات مجھے ان والدین سے ہمیشہ یاد رہے گی، جن کا بچہ آٹسٹک تھا۔ اُن والدین کا بچہ کافی حد تک صحتیاب ہوچکا تھا۔ کم گو تھا مگر نظریں بھی ملاتا تھا، اپنا مافی الضمیر بھی دوسروں تک پہنچاتا تھا اور ایک عام اسکول میں پڑھتا تھا۔

اُن والدین نے ہمیں یہ بھی بتایا اِس کے علاج کے دوران تقریباً آٹھ تھیراپسٹ اِس کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ علاج کتنا مہنگا ہے۔ اُن والدین نے ہمیں یہ بھی کہا تھا کہ آٹزم ایک دیو ہے جسے آپ کو گرانا ہے اور اِس کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہانا پڑے گا۔

آٹزم کے علاج کے دوران شروع میں ہی اِس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ تھیراپی کے طریقہء کار اور اِن کے ہر پہلو کے بارے میں آپ کو ہر لمحہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کی حالت میں بہتری آئے تو لازمی ہے کے آپ تھیراپسٹ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں اور اُس کی کارکردگی کو جانچتے رہیں۔ اِس کا فائدہ نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے بچے کی کارکردگی کے بارے میں پتہ چلتا رہتا ہے بلکہ تھیراپسٹ بھی بہتر انداز میں اپنا کام کرتا ہے۔

آٹزم کی وجہ سے سب سے زیادہ آپ کی سماجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ فاطمہ کو شروع سے ہی خاص خوراک دی گئی، کیونکہ فاطمہ کو چند اقسام کی خوراک، جیسے چینی، مونو سوڈیئم گلوٹامیٹ (MSG)، میدے اور چاول وغیرہ سے الرجی ہے، چنانچہ خیال رکھا جاتا کہ فاطمہ کو ایسا کوئی کھانا نہ ملے جس میں یہ اشیاء شامل ہوں۔ بچوں کو آج کے زمانے میں ان کھانوں سے دور رکھنا بہت مشکل ہے، شروع میں چونکہ فاطمہ کے ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا تھا کہ فاطمہ کو کوئی غلط چیز کھانے میں نہ دی جائے چنانچہ فاطمہ کی سماجی زندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ فاطمہ کے اِس مسئلے کی وجہ سے نہ تو ہم کسی رشتے دار کے گھر جاسکتے تھے نہ کسی شادی پر اور نہ ہی کسی مارکیٹ یا ریسٹورنٹ، کیوں کہ اِن تمام جگہوں پر وہ تمام چیزیں بہتات سے ہوتی تھیں، جن سے فاطمہ کو پرہیز کرنا تھا۔

تاہم دو سال کے اِس سخت پرہیز کے بعد اور مسلسل سپلیمنٹس لینے کے بعد فاطمہ کے جسم میں کافی مدافعت پیدا ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اب اگر کبھی کبھی فاطمہ کوئی بسکٹ، ٹافی یا چاکلیٹ کھالے تو اِس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ اب فاطمہ اپنے رشتے داروں کے گھر بھی جاتی ہے، مارکیٹ اور ریسٹورنٹ اور شادیوں پر بھی۔ یعنی اب فاطمہ کی 'سوشل لائف' ہے اور اِس نے فاطمہ کی شخصیت کو اُبھارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

جانیے: آٹزم کے شکار بچوں کیلئے موبائل ایپ

فاطمہ کی تین چھوٹی بہنیں بھی ہیں جو کہ نیوروٹپیکل (Neurotypical) ہیں۔ ایسی صورت میں جب آپ کے بچوں میں کچھ نیوروٹپیکل اور کچھ آٹسٹک ہوں تو اِن کے درمیان توازن قائم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ عموماً والدین کا جھکاؤ اپنے نیوروٹپیکل بچوں کی طرف ہوتا ہے کیونکہ وہ کمیونیکیٹ کرتے ہیں۔ اِس کے برعکس آٹسٹک بچے اپنی دنیا میں گم رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بچے نظرانداز ہوتے ہیں اور مزید اپنی دنیا میں گم ہوتے جاتے ہیں، اِس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ چاہے وہ آپ کو توجہ دیں یا نہ دیں آپ کو بہرحال اُن کو توجہ دینی چاہیے۔ اُن کو ہر لمحہ احساس دلانا پڑتا ہے کہ وہ آپ کے لیے اہم ہیں اور آپ اُن سے غیرمشروط محبت کرتے ہیں بالکل جیسے آپ اپنے دوسرے بچوں سے کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ہمیں فاطمہ کے لیے تھیراپی کے ایک نئے سسٹم کا پتہ چلا، جس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ چوں کہ آٹزم میں بچے اپنی ہی ایک الگ دنیا بسا لیتے ہیں اور اِسی میں رہنا پسند کرتے ہیں، اور اگر آپ اِن آٹزم کے شکار بچوں میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو اِس کے لیے آپ کو اِن کی دنیا میں جانا پڑے گا تاکہ آپ اِن کو اپنی دنیا میں آنے کا راستہ دِکھا سکیں۔ یعنی کہ بچے کے ساتھ بچہ بن جائیں تاکہ آپ ان کے ساتھ تعلقات قائم کر سکیں اور جب یہ تعلق قائم ہو جائے گا تو بچہ خود بخود آپ کی دنیا میں آنے کی خواہش کرے گا۔

آٹزم کی تھیراپیز میں اسپیچ کے ساتھ ساتھ آپریشنل تھیراپی (Operational Therapy) بھی بہت ضروری ہوتی ہے جوکہ بچے کو اپنے جسم اور ماحول کے درمیان توازن قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

آٹزم ایک ایسا سنڈروم ہے جس میں بچے کو صرف اور صرف آپ کی ضرورت سے زیادہ توجہ، وقت اور پیار چاہیے ہوتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ پیار اور توجہ تو کسی بھی بیماری کے آدھے علاج کے برابر ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچے کے بارے میں کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔


فاطمہ کی والدہ نے اپنی کہانی لکھاری کو سنائی جنہوں نے اسے بلاگ کی شکل میں تحریر کیا۔

سائرہ ایوب

سائرہ ایوب لاہور کے ایک سرکاری کالج میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ معذوری کے حوالے سے افسانے اور مضامین لکھتی رہتی ہیں اور معذوروں کے مسائل اور ان رکاوٹوں پر روشنی ڈالتی ہیں جن کی وجہ سے معذور حقیقتاً معذور بن جاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024