حکومت فوج کو بلانے،معاہدہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟ رضا ربانی
اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ملک میں ابھرتے ہوئے ٹرینڈز ریاست کے لیے خطرناک ہیں جبکہ بتایا جائے حکومت فوج کو بلانے اور معاہدہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟
سینیٹ اجلاس کے دوران رضا ربانی نے فیض آباد دھرنے کے شرکا سے معاہدے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 22 دن اسلام آباد اور راولپنڈی یرغمال رہا، دھرنے کے شرکاء سے معاہدہ اور اسلام آباد میں فوج کو طلب کیا گیا، وزیر قانون زاہد حامد عہدے سے مستعفی ہوگئے، ملک میں اتنا کچھ ہوا لیکن پارلیمنٹ کو کسی فیصلے سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، وزیر اعظم ملک میں موجود ہیں نہ وزیر داخلہ تو کیا حکومت ٹھیکے پر دے دیں؟ وزیرداخلہ 15 منٹ کے نوٹس پر عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں تو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں، جبکہ وزیر اعظم کو خود ایوان میں آنا چاہیے۔
چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم جدہ میں موجود ہیں، جدہ زیادہ اہم ہے یا ملکی صورتحال؟ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں آکر موجودہ صورتحال سے متعلق پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، ایوان جاننا چاہتا ہے کہ حکومت کو کس بات نے دھرنے کے شرکاء سے معاہدہ اور اسلام آباد میں فوج کو بلانے پر مجبور کیا؟
یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت کا حلف نامہ:راجہ ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی
انہوں نے کہا کہ دھرنے کے دوران ارکان پارلیمنٹ اور ان کے گھروں پر حملے کیے گئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ملک میں ابھرتے ہوئے ٹرینڈز نہ صرف سیاست اور جمہوریت بلکہ ریاست کے لیے بھی خطرناک ہیں، پارلیمنٹ جمہوری نظام پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا اور ریاست کی رٹ کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا جائے گا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ملک میں ہونے والے تمام دھرنوں کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔
ارکان سینیٹ نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ حکومت کو تمام حقائق پارلیمنٹ کے سامنے رکھے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: فوج کی جانب سے معاہدہ کرانا تشویشناک ہے،زاہد حسین
واضح رہے کہ پیر کی صبح وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے استعفیٰ دینے کے بعد گزشتہ 20 روز سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے جاری دھرنا ختم کر دیا گیا تھا۔
فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ملک کے چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے ثالث بن گئے۔
مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت انہوں نے استفسار کیا کہ پاکستانی قانون میں ایک میجر جنرل کو ثالث بنانے کا اختیار کہاں دیا گیا ہے، جس بندے کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا اسے ثالث بنا دیا گیا۔