2025 تک دنیا میں ایل این جی کی قلت ہوسکتی ہے، قطر
سانٹا کروز: قطر کے توانائی و صنعت کے وزیر محمد صالح عبداللہ السعدا کا کہنا ہے کہ 2025 تک عالمی گیس مارکیٹ میں قدرتی مائع گیس (ایل این جی) کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے اس کی وجہ ایل این جی نکالنے کے نئے منصوبوں میں کمی اور کوئلے اور جوہری توانائی کی جگہ گیس کی بڑھتی ہوئی طلب کو قرار دیا۔
روسی خبر رساں ایجنسی ’اسپوتنک‘ کی رپورٹ کے مطابق بولیویا میں گیس برآمد کرنے والے ممالک کے فورَم(جی ای سی ایف) سے خطاب کرتے ہوئے محمد صالح عبداللہ السعدا نے ایک دہائی تک ’ایل این جی‘ کی مانگ مسلسل بڑھنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئلے اور جوہری توانائی کے بجائے گیس کے استعمال اور تونائی مارکیٹ کی ڈویلپمنٹ کی وجہ سے 2030 تک ایل این جی کی طلب بڑھ کر تقریباً 50 کروڑ ٹن سالانہ ہوجائے گی۔‘
واضح رہے کہ قطر 2040 تک خود ’ایل این جی‘ پیداوار سالانہ 7 کروڑ 70 لاکھ ٹن سے بڑھا کر 10 کروڑ ٹن کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان بھی ’ایل این جی‘ کو توانائی کے ذرائع کے طور پر استعمال کرنے والا ملک ہے اور قطر سے ایل این جی کی درآمد کے آغاز کے بعد ملک میں اس سے چلنے والے کئی پاور پلانٹس کا افتتاح ہوچکا ہے۔
رواں سال اگست میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بندرگاہ پورٹ قاسم پر ایل این جی کے ’ٹرمینل ٹو‘ کا افتتاح کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان قطر سے ایل این جی درآمد جاری رکھے گا‘
افتتاح کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ’قدرتی گیس کا یہ ٹرمینل ملک میں گیس کی سپلائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جبکہ صنعتوں کو بلاتعطل گیس کی سپلائی جاری ہے۔‘
قبل ازیں اپریل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے شیخوپورہ میں 1180 میگاواٹ پیداواری استعداد رکھنے والے بھکی پاور پلانٹ کا افتتاح کیا تھا۔
بھکی پاور پلانٹ ایل این جی سے چلنے والا پاکستان کا پہلا پاور پلانٹ ہے۔
پاکستان نے گذشتہ برس قطر کے ساتھ ایک ارب ڈالر کا معاہدہ کیا، جس کے تحت قطر کی لیکیوفائیڈ گیس کمپنی لمیٹڈ 2016 سے 2031 کے دوران پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو ایل این جی فروخت کرے گی۔
معاہدے پر دستخط کے موقع پر اس وقت کے وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’قطر سے مائع قدرتی گیس کی درآمد کا معاہدہ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جبکہ معاہدے سے گھریلو صارفین اور صنعتی شعبے کی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔‘
انہوں نے معاہدے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان قطر سے 37 لاکھ 50 ہزار ٹن سالانہ ایل این جی حاصل کرے گا۔‘
معاہدے کے بعد پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شاہد خاقان عباسی پر کرپشن کے الزامات لگنا شروع ہوئے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم نے پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینل ٹو کا افتتاح کردیا
اکتوبر 2017 میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے ایل این جی درآمد کے لیے قطر سے کیا گیا معاہدہ حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاک قطر ایل این جی معاہدہ تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہے، جس کے ذریعے شاہد خاقان عباسی نے 200 ارب روپے کی کرپشن کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حدیبیہ پیپر ملز چوروں کی ماں ہے تو ایل این جی معاہدہ چوروں کی نانی ہے جبکہ یہ معاہدہ سوئی سدرن کی تباہی کا موجب بنے گا۔‘
چند روز بعد ہی سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’قطر ایل این جی کا سب سے بڑا سپلائر ہے اور ہم نے قطر کے ساتھ ایل این جی کے حوالے سے جتنے بھی معاہدے کیے ان کی دستاویزات ہر فورم پر موجود ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں گارنٹی دیتا ہوں کہ قطر سے جس قیمت پر ہم نے ایل این جی خریدی دنیا کا کوئی ملک اس قیمت پر ایل این جی حاصل نہیں کر سکتا تھا، جس قیمت پر ہم نے ایل این جی حاصل کی دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔‘