• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

اوبر کا ڈیٹا ہیک کرنے والوں کو ایک لاکھ ڈالر کی ادائیگی

شائع November 23, 2017

واشنگٹن: دنیا بھر میں ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی کمپنی اوبر ٹیکنالوجیز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کے 5 کروڑ 70 لاکھ صارفین کی ذاتی معلومات چوری کرنے والے ہیکرز کو 1 لاکھ ڈالر کی کثیر رقم مذکورہ معلومات چھپانے کے لیے ادا کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا کہ رواں سال اگست میں اوبر کمپنی کے سابق چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) تراویس کالانیک کو تبدیل کرنے والے نئے سی ای او دارا خسروشاھی نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ہیکنگ کی وجہ سے امریکی کمپنی نے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے دو ملازمین کو بھی برطرف کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ' ایسا کچھ ہونا نہیں چاہیے تھا اور میں اس کے لیے بہانے نہیں بناؤں گا'۔

مزید پڑھیں: پاکستانی لڑکی کا کریم بائیک کا منفرد سفر

انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں پیش آیا جس کے بارے میں انہیں ابھی پتہ چلا ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل اوبر سروس پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

دارا خسروشاھی کے مطابق چوری کی گئی معلومات میں دنیا بھر میں اوبر سروس استعمال کرنے والوں کے نام، ای میل ایڈریسز اور موبائل فون نمبرز جبکہ 6 لاکھ کے قریب امریکا میں مقیم اوبر کے ڈرائیورز کے نام اور لائسنس نمبر بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اوبر کے مسافروں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس فراڈ کے کوئی ثبوت باقی نہیں رہے اور جن ڈرائیورز کے لائسنس نمبرز چوری کیے گئے تھے ان کی شناخت کو مفت میں تحفظ فراہم کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اوبر اور کریم پر فی الحال 'پابندی نہیں'

اوبر کمپنی کا کہنا تھا کہ دو ہیکرز نے گٹ ہب میں محفوظ کی گئی معلومات تک رسائی حاصل کی تھی۔

گٹ ہب کی ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ہیکنگ گٹ ہب کی سیکیورٹی کی ناکامی کی وجہ سے نہیں پیش آئی۔

دارا خسرو شاہی کا کہنا تھا کہ 'میں گزرے ہوئے وقت کو مٹا نہیں سکتا لیکن میں اوبر کے تمام ملازمین کی جانب سے یہ عہد کرسکتا ہوں کہ ہم اپنی غلطیاں سدھار لیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے کاروبار کے طریقہ کار کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے صارفین کا بھروسہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: اوبر کا پاکستانی صارفین کے لیے کارآمد فیچر متعارف

اوبر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کمپنی نے نگراں ادارے کو اطلاع دینا شروع کردیا ہے جبکہ ترجمان کے مطابق نیو یارک کے اٹارنی جنرل نے معاملے پر تحقیقات شروع کردی ہیں۔

اوبر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے چیف سیکیورٹی آفیسر جوا سلیوان اور ڈپٹی کریگ کلارک کو رواں ہفتے ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اوبر کے سابق سی ای او تراویس کالانیک کو معلومات کی چوری کے ایک ماہ بعد اس معاملے کی اطلاعات مل گئی تھیں۔

ایک اور ذرائع کا کہنا تھا کہ بورڈ کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ معاملے کو چھپانے میں نہ ہی تراویس کالانیک اور نہ ہی اوبر کے کونسل جنرل سلے یو شامل ہیں۔

اس سے قبل اوبر کا کہنا تھا کہ ڈرائیورز کی لائسنس کی معلومات کی چوری پر اوبر کو رپورٹ کرنا چاہیے تھا تاہم وہ نہیں کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں: جب 'کریم' کی رشتہ سروس سے سب نے فائدہ اٹھایا

اوبر کے سابق سی ای او تراویس کالانیک اپنے ترجمان کے ذریعے اس معاملے پر اپنی رائے دینے سے انکار کیا تاہم وہ اب بھی اوبر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں اور دارا خسرو شاھی کا کہنا تھا کہ وہ ان سے روزانہ مشاورت کرتے ہیں۔

جرم کی قیمت

عمومی طور پر ہیکرز کو ادا کی جانے والی رقم کو عوامی سطح پر بحث نہیں کیا جاتا تاہم امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گشن کے حکام اور پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیز کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں کمپنیاں اپنی چوری کی گئی معلومات کو لوٹانے کے لیے ہیکرز کو رقم ادا کر رہی ہیں۔

کیلیفورنیا کی سائبر سیکیورٹی کمپنی ایریا 1 سیکیورٹی کے بانی اورین فیلکووٹز کا کہنا تھا کہ 'انٹرنیٹ کی دنیا میں برے اعمال کرنا آج کل بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہا ہے'۔

مزید پڑھیں: اوبر بمقابلہ کریم : کونسی سروس زیادہ بہتر؟

خیال رہے کہ اس سے قبل 2014 میں بھی اوبر ڈرائیورز کی معلومات چوری کی گئی تھیں۔

دارا خورو شاھی کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکا کے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے جنرل کونسل میٹ اولسن کو کمپنی کی سیکیورٹی ٹیم اور معاملات کو دیکھنے کے لیے ملازمت پر رکھا ہے۔

کمپنی نے سائبر سیکیورٹی کے ادارے فائر آئی کے مالک مینڈیانٹ کو معاملے کی تحقیقات کے لیے ملازمت پر رکھ لیا ہے۔


یہ خبر 23 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024