• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

’مسلم لیگ میں اختلاف رائے ضرور مگر کوئی گروہ بندی نہیں‘

شائع November 23, 2017

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے تحت نواز شریف کے خلاف پیش کیے گئے مخصوص بل کے موقع پر 22 لیگی اراکین کی غیر موجودگی ان کی ذاتی وجوہات کی بنا پر تھی، مسلم لیگ (ن) میں کوئی منظم گروہ نہیں ہے جو پارٹی کی قیادت حاصل کرنا چاہتا ہو۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ نے قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے نااہل شخص کے پارٹی کی قیادت سے متعلق پیش کردہ بل کو 163 کے مقابلے میں 98 ووٹ سے مسترد کرتے ہوئے ان تمام قیاس آرائیوں کو دور کردیا کہ مسلم لیگ (ن) تقسیم ہو رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو اس وقت کچھ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب سابق وزیر اعظم اور حکومت کے اتحادی ظفر اللہ خان جمالی نے اپوزیشن کی حمایت میں کھلے عام ووٹ دیا۔

حکام کے حاضری ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس روز حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں سے تعلق رکھنے والے 62 اراکین غیر حاضر رہے تھے، مسلم لیگ (ن) کے غیر حاضر رہنے والے زیادہ تر اراکین کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔

حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اجلاس سے غیر حاضری کا کوئی اجتماعی یا انفرادی مقصد نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: نااہل شخص کی پارٹی سربراہی کے خلاف بل اکثریت رائے سے مسترد

جن اراکین نے اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کی ان میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور ملتان سے وزیر خوراک سکندر بوسن بھی شامل تھے، ان کے علاوہ خانیوال سے رضا حیات ہراج، راجن پور سے جعفر لغاری، مظفر گڑھ سے سلطان ہنجرہ اور باسط بخاری، بہاولپور سے طاہر بشیر چیمہ، بہاول نگر سے علمداد لالیکا، رہیم یار خان سے خسرو بختیار، ننکانہ صاحب سے چوہدری بلال ورک، جھنگ سے نجف عباس سیال، گجرانوالہ سے رانا عمر نذیر، فیصل آباد سے ڈاکٹر ناصر جٹ، جہلم سے راجہ مطلوب مہدی اور فاٹا سے نذیر خان شامل ہیں۔

جب ان تمام اراکین سے رابطہ کیا تو انہوں دعویٰ کیا کہ انہوں نے ذاتی وجوہات یا طبیعت کی خرابی کے باعث اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کی جبکہ انہوں پارٹی کی قیادت سے کسی معاملے پر بھی اختلاف نہیں ہے۔

پارٹی کے واحد رکن اسمبلی رضا حیات ہراج کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ انہوں نے اجلاس میں شرکت اس لیے نہیں کی کہ ان کے بل پر رائے مختلف تھی۔

اس حوالے سے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے رضا حیات کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے پیش کردہ بل پر کوئی سمجھ دار شخص اپوزیشن کے پیش کردہ بل کے خلاف ووٹ نہیں کرسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے گزشتہ بل کے مطابق کوئی قاتل یا دہشت گرد بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا سیاست سے کردار ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن جنہوں نے انہیں اس قانون سازی کا مشورہ دیا وہ جمہوریت اور پارٹی کے خیر خواہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نااہلی کے بعد نوازشریف ایک بار پھر مسلم لیگ کے صدر منتخب

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت پارٹی کی قیادت کو اپنے تحفظات سے پہلے آگاہ کردیا تھا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے تحفظات سے وزیر اعظم کو بھی ان کے سیکریٹری کے ذریعے آگاہ کردیا تھا۔

رضا حیات نے دعویٰ کیا کہ اجلاس سے دور رہنے کا فیصلہ ان کا اپنا ذاتی فعل ہے، ان کا اس معاملے پر کسی دوسری جماعت کے اراکین سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے کہا کہ انہیں اسمبلی اجلاس میں غیر حاضر رہنے والے اراکین اسمبلی کا نام تک معلوم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان کا ذاتی خیال ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون سازی پر ایکشن لے گا جو پارٹی اور نواز شریف کے لیے زیادہ شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق سکندر بوسن نے اجلاس میں طبیعت ناسازی کی وجہ سے شرکت نہیں کی جبکہ جعفر لغاری غیر ملکی دورے پرتھے۔ دریں اثناء فاٹا سے رکن قومی اسمبلی نذیر خان نے ڈان کو بتایا کہ وہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بھی موجود تھے لیکن بل پر ووٹ سے قبل ان کے والد کی طبیعت خرابی کے باعث انہیں گھر لوٹنا پڑا۔

اسی طرح راجہ مطلوب کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے لیکن انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ان کا نام رکن کی حیثیت پر دوبارہ بحال کردیا ہے۔

خیال رہے کہ راجہ مطلوب کو اثاثہ جات کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر ای سی پی کی جانب سے معطل کیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے بھی متعدد اراکین اسمبلی موجود نہیں تھے، جس میں میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر مرتضیٰ جتوئی اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے غوث بخش مہر شامل تھے، تاہم ان جماعتوں کے جو اراکین موجود تھے انہوں نے ووٹنگ کے عمل میں حکومت کی حمایت کی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کا بل روکنے کیلئے حکومت متحرک

ڈان نے جب پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کے سینئر نائب صدر سینیٹر مظفر حسین شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کو مسلم لیگ (ن) سے کوئی اختلاف نہیں تاہم بل پر ووٹنگ سے متعلق پارٹی کی قیادت نے کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے کہا کہ قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے اپوزیشن بل کے مسترد ہونے نے مسلم لیگ (ن) میں تقسیم سے متعلق تمام قیاس آرائیوں کو دفن کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ کچھ انفرادی لوگوں کا اس معاملے پر اختلاف رائے ہے لیکن پارٹی میں کوئی گروہ بندی نہیں ہو رہی، مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے۔


یہ خبر 23 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024