• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نیب ریفرنس: نواز شریف، مریم نواز کی عدالت سے حاضری سے مزید استثنیٰ کی درخواست

شائع November 22, 2017 اپ ڈیٹ November 23, 2017

سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کے دوران اسلام آباد کی احتساب عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ کی درخواست جمع کرادی۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، شریف خاندان کے خلاف بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کررہے تھے۔

اس موقع پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ کی درخواست کی گئی، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی۔

اس سے قبل سابق وزیر اعظم نیب ریفرنسز کیس کی سماعت کے لیے جوڈیشل کمپلیکس پہنچ کر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'دیکھیں کیسے کیسے دور سے گزرنا پڑ رہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں شروع ہونے والے دھرنے اب تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں لیکن ان دھرنوں کے باوجود بھی ہم نے ڈیلیور کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر الزام لگاتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کے بھی کرپشن کیسز چل رہے ہیں اور وہ لوگ مکمل طور پر جھوٹے اور فریبی ثابت ہورہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'انصاف کے تقاضوں کا مذاق بند ہونا چاہیے، کوئی بھی کرپشن سے پاک نہیں لیکن ہمارے لیے انصاف کا معیار کچھ اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہے'۔

خیال رہے کہ احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت جاری ہے جس میں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے حاضری پر استثنیٰ کا فیصلہ کیا جائے گا۔

سماعت کے دوران نیب استغاثہ نے شریف خاندان کے خلاف آر آئی اے اے بارکر جیلٹ لاء فرم سے تعلق رکھنے والے دو نئے گواہان محمد رشید اور مظہر رضا خان بنگش کو احتساب عدالت میں پیش کیا۔

دونوں گواہان نے ایونفیلڈ ریفرنس کے حوالے سے اپنے بیانات عدالت میں قلم بند کروائے جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے گواہان سے جرح کی۔

اپنے بیان میں محمد رشید کا کہنا تھا کہ انہیں نیب لاہور سے 5 ستمبر کو خط موصول ہوا تھا جس کے بعد وہ نیب میں پیش ہوئے اور متعلقہ دستاویزات تفتیشی افسران کے حوالے کردیں۔

نیب استغاثہ افضل قریشی نے گواہوں کو پریشان کرنے کا الزام لگایا بعد ازاں خواجہ حارث اور افضل قریشی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب استغاثہ نے غیر ضروری مداخلت کر رہے ہیں۔ جس پر نیب استغاثہ کا کہنا تھا کہ 'خواجہ صاحب ہمارے پیش کیے گئے گواہان سے جو چاہے پوچھیں اور ہم خاموش رہیں؟'۔

خیال رہے کہ گواہان نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ ان کا جمع کی گئی دستاویزات سے کوئی ذاتی تعلق نہیں۔

دوسرے گواہ مظہر رضا خان بنگش نے عدالت کو بتایا کہ وہ نیب لاہور کے سامنے اس سے قبل 30 اگست کو پیش ہوچکے ہیں جس میں انہوں نے متعلقہ دستاویزات تفتیشی افسران کو جمع کرائے تھے جن کی حلفیہ بیان میں تصدیق کی گئی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب کو جمع کرائی جانے والی دستاویزات انہیں ان کی کمپنی کی جانب سے دی گئی تھیں جس پر وہ اپنی رائے نہیں دے سکتے۔

خواجہ حارث نے جرح کے دوران مظہر خان بنگش سے سوال کیا کہ 'سچ بولنا تو بڑا آسان ہے لیکن جھوٹ بولنا الگ ہوتا ہے' جس پر نیب استغاثہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے کسی گواہ کو جھوٹا قرار دینا انتہائی نا مناسب ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران نیب استغاثہ نے دو گواہان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جوائنٹ رجسٹرار صدرہ منصور اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے محکمہ ان لینڈ ریوینیو کے جہانگیر احمد کو پیش کیا تھا۔ ان دونوں افراد نے شریف خاندان کے خلاف عدالت میں اپنے بیانات قلم بند کروائے تھے۔

نیب ریفرنسز پر سماعت کے دوران حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی بھی آگے بڑھائی جائے گی۔

سابق وزیر اعظم عدالت سے روانہ ہو چکے ہیں تاہم روانگی سے قبل جوڈیشل کمپلیکس کی عمارت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی نے جو آمرانہ پسند بل ایوان میں پیش کیا اس پر مایوسی ہوئی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بل کو مسترد ہونے پر وہ تمام اتحادی جماعتوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

سابق وزیراعظم کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں اور اس کے اطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024