• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اسلام آباد دھرنا ختم کروانے کیلئے عدالت کی 23 نومبر تک کی مہلت

شائع November 20, 2017 اپ ڈیٹ November 21, 2017

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ عدالتی حکم پر ضرور کارروائی کی جائے گی تاہم عدالت سے دھرنا ختم کرانے کے لیے 23 نومبر تک کی مہلت حاصل کرلی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر دھرنے والوں کو پوری دنیا میں پاکستان کا تماشا بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سازشی عناصر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد جیسا واقعہ کروانا چاہتے ہیں تاہم پاکستان بھر کے علماء اور مشائخ کو طلب کیا گیا ہے تاکہ معاملے کا پُرامن حل نکلا جا سکے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاء کو نہ ہٹانے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ختم نبوت حلف نامے کی بحالی کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظور

اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے احسن اقبال سے کہا کہ کورٹ کا احترام نہیں ہورہا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، ان تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کے طور پر ڈیل کیا جائے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں — فوٹو / ڈان نیوز
وزیر داخلہ احسن اقبال میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں — فوٹو / ڈان نیوز

وزیر داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ سارا عمل 2018کے الیکشن کی تیاری کے لیے ہو رہا ہے تاہم اس معاملے میں ملک کے علماء و مشائخ نے رابطہ کیا ہے کہ وہ معاملے کے حل کے لیے مدد کرنا چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ان جماعتوں نے پنجاب حکومت کو دھرنا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، جبکہ اس دھرنے کی مدد سے کچھ عناصر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ دھرنے میں شریک مظاہرین اسلام آباد کی اتنی اہم جگہ پر کیسے پہنچے جبکہ عدالت واضح حکم دے چکی ہے کہ احتجاج، دھرنوں اور مظاہروں کے لیے پریڈ گراؤنڈ مختص ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے عدالت سے 48 گھنٹے کی مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ راستہ کلئیر کرالیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا پاکستان سے توہین مذہب کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ

تاہم عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا جبکہ سیکرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر اسلام آباد کو شوکاز نوٹسز جاری کردیئے۔

قبلِ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی تھی، اس موقع پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ کچھ باتیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کی جا سکتیں۔

جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جو بات کرنی ہے اوپن کورٹ میں کریں، جو بات ہے اس پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی زاہد حامد کو چھٹیوں پر بھیجنے کی پیشکش مظاہرین نے مسترد کردی

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 8 لاکھ شہریوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرسکتے، انہوں نے حکومت سے استفسار کیا کہ تاجروں، مریضوں، طلبہ اور ملازمین کا کیا قصور ہے؟

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بتایا جائے ابھی تک عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟

عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ علیحدگی میں کیا بات کریں گے یہی کہِیں گے کہ دھرنے والوں کے پاس اسلحہ ہے۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: احسن اقبال کی ایک مرتبہ پھر فیض آباد دھرنا ختم کرنے کی اپیل

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور قوم سے خطاب کرکے بتائیں کہ دھرنا ختم کرنے میں کیا مشکلات ہیں۔

جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاء کو فیض آباد سے نہ ہٹانے پر حکومت پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو ساڑھے 11 بجے تک طلب کرلیا تھا۔

راجہ ظفرالحق کمیٹی کی سفارشات سامنے لانے پر اتفاق

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

حکومت و علما و مشائخ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ’ملک کسی قسم کی بدامنی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے مسئلے کا فوری اور پرامن انداز میں حل چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ختم نبوت سے متعلق کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے، ختم نبوت ﷺ پر قانون میں سقم 2002 میں پیدا کیا گیا تھا جسے اب دور کردیا گیا ہے اور قانون سازی سے ختم نبوت ﷺ پر قانون مستقل بنیادوں پر قائم کردیا گیا ہے۔‘

اس موقع پر وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے اجلاس کے اعلامیے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’عقیدہ ختم نبوت ہمارے دین کی اساس ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی کی گنجائش نہیں، اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ راجہ ظفرالحق کی کمیٹی کی سفارشات اور غلطی کے ذمہ داروں کا نام منظر عام پر لائے جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور دھرنے والے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں، اجلاس نے حکومت پر زور دیا کہ طاقت کے استعمال سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، علما کے اعلامیے پر عمل کیا جائے گا جبکہ مختلف مسالک کی نمایندہ کمیٹی بنائی جائے جو اس مسئلے کا جامع حل پیش کرے۔‘

اعلامیہ میں تحریک لبیک کی قیادت سے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ مسئلہ پرامن طریقے سے حل کرے۔

گذشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے میں موجود شرکاء سے ایک مرتبہ پھر دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی دھرنے کو ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے کے بعد فیض آباد انٹرچینج کی صورت حال میں کافی تناؤ پیدا ہوا جبکہ وزیرداخلہ احسن اقبال کے حکم پر آپریشن کو 24 گھنٹوں کے لیے مؤخر کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 'معاملے کا حل پرامن طریقے سے نکل آئے گا'

احسن اقبال نے آپریشن کو مؤخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحفظ ختم نبوت قانون پاس ہونا پارلیمنٹ کا تاریخی کارنامہ ہے اور قیامت تک کوئی اس میں تبدیلی نہیں لا سکے گا اس لیے اب دھرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔

خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔

دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے تو انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: ضلعی انتظامیہ کو مظاہرین کو ہٹانے کی ہدایت

مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

سٹرک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Nov 20, 2017 07:18pm
اگرچہ عدالت عالیہ کا اعتراض اپنی جگہ درست ہے، اور دھرنے کو ختم ہونا ہی چاہیے یا حکومت کو ختم کروانا ہی چاہیے؛ لیکن میں پھر بھی یہ کہوں گا کہ حکومت نے جس طرح اب تک تصادم سے احتراز کیا ہے وہ اب بھی اس مسئلے کو بات چیت ہی سے حل کرنے کی انتہائی کوشش کرتی رہے۔ کچھ جانی نقصان ہو چکا ہے، اب جانی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ دھرنے والوں سے بھی یہ کہنا ہے کہ وہ بھی عقل کے ناخن لیں اور عدالت کے حکم کی تعمیل کریں۔ وہ اس بات کو سمجھیں کہ عدالتوں کی سمجھ عام اور معمولی نہیں ہوتی، ان کے فیصلوں کو قران کے ان احکامات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے جن میں ہدایت دی گئی ہے کہ قانون کی پاسداری سب سے مقدم ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024