• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

انتخابی ترمیمی بل 2017 سینیٹ سے متفقہ طور پر منظور

شائع November 17, 2017

اسلام آباد: قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ نے بھی متفقہ طور پر انتخابی ترمیمی بل 2017 منظور کرلیا۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی سربراہی میں ایوان بالا کا اجلاس ہوا تو وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کیے گئے انتخابی ترمیمی بل 2017 کو پیش کیا۔

سینیٹ اجلاس کے دوران قائد ایوان راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ 'میں ان تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے ایمان کا ثبوت دیتے ہوئے اس بل کو منظور کیا'۔

اجلاس کے دوران ڈپٹی چئیرمین سینیٹر عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ 'پارلیمنٹ نے مہر تصدیق ثابت کردی ہے کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی حیثیت برقرار ہے، اگر کہیں کوئی کوتاہی یا لغزش ہوئی تو وزیرقانون نے اس کا فوری احساس کرتے ہوئے متبادل بل بنا کر منظور کرایا'۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل منظور

اراکین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آپ نے ختم نبوت کے معاملے کو 1973 کے آئین کے مطابق برقرار رکھاجس پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ہمارا عقیدہ ایک مرتبہ پھر محفوظ ہوگیا جسکا کریڈٹ پارلیمنٹ ہوجاتا ہے'۔

قائد حزب اختلاف سینٹر اعتزاز احسن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'آج کے بل پر اپنا ووٹ ڈالنے آیا ہوں، بل کے بارے جو ابہام پیدا ہوا تھا اسے ختم ہونا چاہئے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر کوئی کسی پر شک کرے گا تو اسے 15 روز میں ایمان کا سرٹیفیکٹ دینا ہوگا، الزام لگانے کا سلسلہ کہاں رکے گا؟'

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے بھی سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر اس قانون کا غلط استعمال کیا جائے تو غلط الزام لگانے والے کو بھی سزا دی جاسکتی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمانی رہنماؤں کا حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیمی بل پر اتفاق

اس سے قبل وزیر قانون زاہد حامد نے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ’اتفاق رائے‘ کے بعد 2 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیمی بل پیش کیا تھا۔

تاہم ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے ’غیر آئینی‘ قرار دیا تھا، جس کے نتیجے میں بل کو مزید مشاورت کے لیے واپس کردیا گیا تھا۔

تاہم 15 نومبر کو پارلیمانی رہنماؤں نے مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئین میں ترمیم کے بل پر اتفاق کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم:تحقیقاتی رپورٹ جمع

قبل ازیں پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں ’ختم نبوت‘ سے متعلق ’کنڈکٹ آف جنرل الیکشنز آرڈر 2002‘ کی شق 7 بی اور 7 سی کو بھی اصل شکل میں بحال کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں، جو کہ اب ترمیمی بل کی وجہ سے واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہیں۔

مذکورہ شقوں کے مطابق انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔

اگرچہ حکومت نے اسے ’کتابت کی غلطی‘ قرار دیا تھا لیکن اس شقوں کے خارج ہونے پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا، جس کے باعث دارالحکومت میں لاک ڈاؤن کی سورتحال پیدا ہوگئی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024