• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

قومی اسمبلی میں حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل منظور

شائع November 16, 2017 اپ ڈیٹ November 17, 2017

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل 2017 دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگیا۔

اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون زاہد حامد نے حلقہ بندیوں سے متعلق آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا۔

اپوزیشن جماعتوں سمیت قومی اسمبلی کے 242 اراکین کی جانب سے بل کی حمایت کی گئی، جبکہ جمشید دستی نے بل کی مخالفت کی۔

آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے 228 ووٹ درکار تھے۔

جمشید دستی نے حکمراں جماعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’مردم شماری پر اعتراضات ہیں، ہم عوام کے مینڈیٹ کی توہین کر رہے ہیں، جبکہ میں ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کروں گا۔‘

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے سندھ میں دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، اگر مردم شماری ٹھیک نہیں تو الیکشن کیسے شفاف ہو سکتے ہیں۔

قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ الیکشن میں تاخیر ہو، لیکن وسیع تر مفاد میں حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیم کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھیں: پارلیمانی رہنماؤں کا حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیمی بل پر اتفاق

یاد رہے کہ وزیر قانون زاہد حامد نے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ’اتفاق رائے‘ کے بعد 2 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیمی بل پیش کیا تھا۔

تاہم ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے ’غیر آئینی‘ قرار دیا، جس کے نتیجے میں بل کو مزید مشاورت کے لیے واپس کردیا گیا تھا۔

گزشتہ روز پارلیمانی رہنماؤں نے مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئین میں ترمیم کے بل پر اتفاق کرلیا۔

انتخابات ترمیمی بل 2017 منظور

قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں ’ختم نبوت‘ کی قانونی شقوں کو اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے ’انتخابات ترمیمی بل 2017‘ کی کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون زاہد حامد نے الیکشن ترمیمی بل 2017 پیش کیا۔

بل میں ’انتخابات ایکٹ 2017‘ میں ایک نئی دفعہ 48 ’اے‘ کے ذریعے ’جنرل الیکشنز آرڈر 2002‘ کی شقیں 7 ’بی اور 7 ’سی‘ شامل کرنے کا کہا گیا ہے۔

زاہد حامد نے کہا کہ ختم نبوت کے ترمیمی بل میں قادیانی غیر مسلم برقرار رہیں گے، قادیانیوں کی علیحدہ ووٹر لسٹ ہوگی، جبکہ 7 سی کے مطابق قادیانی مسلمانوں کے ساتھ ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہوں گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میرے خلاف غلط الزامات لگائے گئے، بل میں کوِئی کوتاہی نہیں ہوئی، ختم نبوت پر مکمل یقین رکھتا ہوں جبکہ اس پر میرا خاندان بھی قربان ہے۔‘

اس موقع پر وزیر داخلہ احسن اقبال بھی زاہد حامد کی حمایت میں آگے بڑھے اور اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ایمان اور رب سے تعلق کا معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے اور کسی کو کسی کے ایمان سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔‘

قومی اسمبلی نے ختم نبوت سے متعلق شقیں اصل حالت میں بحال کرتے ہوئے الیکشن ترمیمی بل منظور کر لیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم:تحقیقاتی رپورٹ جمع

واضح رہے کہ گزشتہ روز پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں ’ختم نبوت‘ سے متعلق ’کنڈکٹ آف جنرل الیکشنز آرڈر 2002‘ کی شق 7 بی اور 7 سی کو بھی اصل شکل میں بحال کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں، جو کہ اب ترمیمی بل کی وجہ سے واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہیں۔

مذکورہ شقوں کے مطابق انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔

اگرچہ حکومت نے اسے ’کتابت کی غلطی‘ قرار دیا تھا لیکن اس شقوں کے خارج ہونے پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا، جس کے باعث دارالحکومت میں لاک ڈاؤن کی سورتحال پیدا ہوگئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024