• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اسلام آباد دھرنا: ’عمران خان کا تحریری بیان قابلِ قبول نہیں‘

شائع November 16, 2017

اسلام آباد کے سیکریٹریٹ پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ان کے خلاف دائر 4 مقدمات میں جمع کرائے گئے بیان کو نا قابلِ قبول قرار دے دیا۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان گزشتہ روز انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے جہاں عدالت نے انہیں اپنے خلاف دائر مقدمات میں تحقیقات کا حصہ بننے کا حکم دیا تھا۔

یاد رہے کہ تین برس قبل اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر دیے گئے دھرنے کے دوران سیکریٹریٹ پولیس نے ان کے خلاف 4 مقدمات درج کیے تھے جن میں ایس ایس پی اسلام آباد پولیس اور دیگر اہلکاروں پر حملہ کرنے اور حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات شامل ہیں۔

تاہم عدالتی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے وکیل کے ذریعے ایک صفحے پر مشتمل اپنا بیان سیکریٹریٹ پولیس کے سامنے جمع کرایا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 4 مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

عمران خان کے جواب کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ملزم کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کو تحقیقات میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بیان کو تحقیقات کا حصہ بنانے کے لیے ملزم کو تفتیش کاروں کے سوالات کا جواب دینے کے لیے ان کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف بھی اُس وقت اپنے خلاف کیسز میں تفتیش کاروں کا جواب دینے کے لیے تفتیش کا حصہ بنے تھے جب تفتیش کاروں کی ایک ٹیم ان کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ان کی رہائش گاہ گئی تھی۔

تفتیش کے دوران ملزم سے سوالات، جوابات پر جرح اور ان کے بیانات کی تصدیق کا عمل شامل ہوتا ہے تاہم یہ عمل ملزم یا ملزمہ کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری بیان کے باوجود تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ تفتیش کاروں کے سامنے پیش نہ ہوجائے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان، طاہر القادری کیخلاف وارنٹ گرفتاری نقصان دہ قرار

پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق تفتیش کا حصہ بننے کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین کو تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہونا ہے جس کے لیے وہ پولیس کے کسی بھی آفس کا انتخاب کر سکتے ہیں چاہے اس کے لیے وہ ایس ایس پی آفس جائیں یا پھر انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس کے دفتر جائیں، اس کے علاوہ وہ اپنی مرضی کی جگہ پر پولیس کو تفتیش کے لیے بلا سکتے ہیں۔

ایک تحقیقی افسر (آئی او) انیس اکبر نے ڈان کو بتایا کہ عمران خان نے اپنے وکیل کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرایا جس کے بارے میں پولیس عدالت کو آگاہ کردے گی۔

آئی او کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں تفتیش کا حصہ بننے کی ہدایت جاری کی تھی جس کے جواب میں انہوں نے اپنا بیان جمع کرایا، تاہم یہ عدالت پر ہے کہ وہ اس بیان کو قبول کرتی ہے یا نہیں، جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب یہ عمران خان پر انحصار کرتا ہے کہ وہ تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوں یا نہیں۔

عمران خان کا تحریری بیان

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور ان کی جماعت نے لوگوں کو جمع کیا اور 2013 کے عام انتخابات کے دوران ہونے والی دھاندلی، کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف 126 روزہ طویل دھرنا دیا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی گرفتاری کیلئے پولیس چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل

اپنے بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے تھے جس کا مقصد ان کی اور ان کے پارٹی کارکنان کی آواز دبانا ہے۔

عمران خان نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ انہیں آئین کا آرٹیکل 16 لوگوں کو جمع کرنے، آرٹیکل 17 لوگوں کے ساتھ منسلک ہونے اور آرٹیکل 19 آزادی رائے کی آزادی دیتا ہے۔

اپنے بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد میں دیئے گئے 126 روزہ طویل دھرنے کے دوران ان کے کارکنان پُرامن اور غیر مسلح تھے اور انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے خلاف دائر مقدمات کو خارج کرنے کی بھی استدعا کردی۔


یہ خبر 16 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024