• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اسلام آباد دھرنا: 4 مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

شائع November 14, 2017

اسلام آباد: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو تشدد کیس سمیت چار مقدمات میں ضمانت منظور کرلی۔

اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں قائم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پی ٹی آئی کے 2014 دھرنے سے متعلق دائر ہونے والے 4 مقدمات کی سماعت ہوئی جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا نے عدالت سے چاروں مقدمات میں عمران خان کو ضمانت دینے کی درخواست کی۔

جس پر عدالت نے عمران خان کو چاروں مقدمات میں ضمانت دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ آج سے ہی تمام مقدمات کی تفتیش میں پیش ہوجائیں اور پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔

عدالت نے عمران خان کو چاروں مقدمات میں 2، 2 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کی ہدایات جاری کیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی گرفتاری کیلئے پولیس چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل

پیشی سے قبل صحافیوں کی جانب سے تحریک انصاف کے سربراہ سے سوال کیا گیا کہ وہ شریف خاندان کی دیکھا دیکھی عدالت میں پیش ہورہے ہیں؟

جس پر عمران خان نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’گرکس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور ‘ مجھے اُن سے مشابہت نہ دیں۔

ضمانت حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عدالت سے اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہوگئے۔

بعدازاں عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جھوٹے مقدمات قیادت کو دہشت گردی میں ملوث کرنے اورعوام آواز کو دبانے کے لیے قائم کیے گئے‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے سماعت کے دوران فاضل جج کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ ’عمران خان ’حکومتی اسٹیٹس کو‘ کے سب سے بڑے مخالف ہیں اس لیے اُن کے اور کارکنان کے خلاف یہ مقدمات درج کیے گئے تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان، طاہر القادری کیخلاف وارنٹ گرفتاری نقصان دہ قرار

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدالت کے سامنے یہ مؤقف بھی پیش کیا تھا کہ ’دھرنے کے دوران جو لوگ مارے گئے اُن کے حوالے سے مقدمات درج نہیں کیے گئے بالکل اُسی طرح جیسے ماڈل ٹاؤن کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ عدالت میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا کہ ’یہ ایک جمہوری احتجاج تھا جس کی قیادت عمران خان نے کی، اس طرح کے مظاہرے کسی قانون کے تحت درج نہیں کیے جاسکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پولیس کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ آئی جی اسلام آباد نے خود حکومتی احکامات کو مسترد کرتے ہوئے ’عوام پر ظلم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا‘۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے، اسی بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے چیئرمین تحریک انصاف آج عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ڈی چوک پر 104 روز تک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔

اسے بھی پڑھیں: عمران خان، طاہرالقادری کی جائیداد قرق کرنے کیلئے تفصیلات طلب

احتجاجی مظاہرین کی جانب سے پی ٹی وی کے مرکزی دفتر پر حملہ، ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کو تشدد اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا جس پر دونوں جماعتوں کے سربراہان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات دائر کیے گئے تھے۔

مذکورہ مقدمات کے حوالے سے اس سے قبل ہونے والی سماعت پر عدالت میں پیش نہ ہونے کے باعث عدالت نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ورانٹ گرفتاری اور جائیداد ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024