• KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm

بڑے ایئرپورٹس کی نجکاری کیوں اچھا خیال نہیں؟

شائع November 13, 2017

سول ایوی ایشن نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے انتظامات نجی کمپنی کو دینے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرلیا اور سول ایوی ایشن کے مرکزی دفتر میں ہونے والے اجلاس میں مذکورہ معاملے میں پیشرفت کے بعد زیادہ بولی لگانے والی کمپنی کو ایئرپورٹ کے انتظامات سوپنے کی منظوری دے دی گئی۔

انتظامات حاصل کرنے والی کمپنی کے معاہدے نجی شعبے کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں اور نہ ہی اس ضمن میں پرائیوٹ انڈسٹریز کی جانب سے کوئی سوال کیا گیا، ایئرپورٹ کا انتظام نجی کمپنی کو دینے کا براہ راست فائدہ سول ایوی ایشن کو ہی حاصل ہوگا۔

اگر ایئرپورٹ کے معاملات دوسری کمپنی کو سوپنے سے متعلق دوسرے نقطے کو دیکھا جائے تو شہریوں کو نوکریاں فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے تاہم اس طرح کی منافع بخش کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے شہریوں کے لیے نئی ملازمتوں کے مواقع حاصل ہوں گے۔

اس کے علاوہ اگر ایئرپورٹ کی نجکاری کو دیکھا جائے تو یہ مشورہ بالکل غلط ہے کیونکہ ایئرپورٹ کا شمار انتہائی حساس تنصیبات میں ہوتا ہے، اس لیے یہاں کسی تیسری کمپنی کو اختیارات دینے سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

پڑھیں: 'پی آئی اے کے 26 فیصد حصص کی نجکاری'

یاد رہے کہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا، اسی تناظر میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ہوائی اڈوں کی سیکیورٹی اور حفاظتی اقدامات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ میں ایئرپورٹس کے معاملات نجی کمپنی کو دینے کے حوالے سے فیصلہ جاری کررکھا ہے۔

ایئرپورٹ کے معاملات کسی نجی کمپنی کے حوالے کرنے سے سالانہ 7 ارب روپے آمدن اور 12 ہزار سے زائد لوگوں کو نوکریاں ملنے کے مواقع حاصل ہوں گے، یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے کہ جب ملکی معیشت نئے لوگوں کو نوکری کے مواقع پیش نہیں کررہی۔

پاکستان میں جس طرح بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرز کی اچھی کمپنیاں وقت کی بہت بڑی ضرورت ہیں۔

ویسے تو یہ وقت فوری طور پر پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کی نجکاری کا ہے کیونکہ یہ دونوں حکومتی امداد سے کمپنیاں ملازمین کو بھاری رقم تنخواہوں کی مد میں ادا کررہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال

عالمی مونیٹری فنڈ کی قلیل المدتی معاشی پیش گوئی کے مطابق پاکستان کی معیشت نے سال 18-2017 کے دوران 5.2 فیصد ترقی میں اضافہ ہوا، عالمی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پائیدار معاشی ترقی کی ضرورت ہے اگر ترقی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو 7.8 فیصد لوگوں کو نوکریوں کے مواقع فراہم کیے جاسکیں گے۔

سب سے زیادہ منافع دینے والے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس کو کسی دوسری کمپنی کے حوالے کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جانی چاہیے کیونکہ موجودہ غیر یقینی صورتحال میں ملازمین پر یہ فیصلہ منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

یہ بھی سچ ہے کہ ایوی ایشن انڈسٹری میں کئی مثبت تبدیلیاں ہوئیں جن میں دیگر نجی ائیرلائنز کی تعداد بڑھنا، نئے مقامات اور ہر سال نئے راستوں کو تلاش کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان کو پہلے ہی دنیا بھر میں مشکلات کا سامنا ہے، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران قومی ایئر لائن کے جہازوں میں عملے کی تعداد 5.2 فیصد اضافہ جبکہ مسافروں کی کل تعداد اوسطاً 4.5 فیصد کم دیکھنے میں آئی۔

دوسری جانب دنیا بھر میں پاکستان کو سیاسی محاذ پر بھی مشکلات کا سامنا ہے اس کے علاوہ 50 ارب روپے سالانہ بجٹ حاصل کرنے والی قومی ائیرلائن کو اپنے طور پر بھی دیگر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی ایئرپورٹ حملہ:2سال بعدملزمان کی قبرکشائی کافیصلہ

اطلاعات کے مطابق نئی دہلی اور ممبئی کے ایئرپورٹ بھی نجی کمپنی کے حوالے کیے گئے تاہم یہ تجربہ ناکام رہا کیونکہ لوگوں کی جانب سے اس فیصلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد بھارتی حکومت نے دونوں ہوائی اڈوں پر آمد و رفت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ واپس لیا۔

پاکستان کی بات کی جائے تو سول ایوی ایشن کا منافع بخش ایئرپورٹس کو پرائیوٹ ایئر کرنے کا فیصلہ سمجھ سے باہر ہے، اس کے بجائے گلگلت، چترال اور اسکردو کے ائیرپورٹس کے بارے میں ضرور سوچ سکتی ہے کیونکہ یہ ایئرپورٹس منافع بخش نہیں ہیں اور یہاں پر مسافروں کی آمد و رفت بھی کم رہتی ہے۔

ان ہوائی اڈوں کی نجی شراکت داری اس لیے بھی مناسب ہے کہ مذکورہ علاقوں سے پاک چین اقتصادی راہداری گزر رہی ہے جو مستقبل میں مزید بڑھے گی۔

سول ایو ای ایشن کے سابق سینئر ایگزیکٹو، جنہیں ٹریفک کنٹرول کرنے میں 30 سالہ تجربہ حاصل ہے، نے اس فیصلے کو غلط اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ یہ اہم سرکاری ادارے کو نجی کمپنی کے حوالے کرنے کا فیصلہ بہت بڑی غلطی ہے‘۔


ہفتہ وار جریدے ’بزنس اینڈ فنانس‘ کی یہ خبر 13 نومبر 2017 کے اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Nov 13, 2017 05:01pm
ایسا نہ ہو کہ گلگت، چترال اور اسکردو ائیر پورٹ آغاخان کو دے دیے جائیں۔ خیرخواہ

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024