وقت پر انتخابات کے انتظار میں کہیں کھیل سمٹ ہی نہ جائے
اب صرف 3 آپشنز ہی رہتے ہیں۔ وقت پر انتخابات، دیر سے انتخابات یا پھر انتخابات کے انعقاد سے انکار۔ کس کو کیا بھاتا ہے، اِس پہیلی کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔
رواں ہفتے کی افراتفری میں ایک بات کا بھی اطمینان ہوا۔
کراچی میں جاری شور و غل تو بہت برپا ہوا، لیکن اِس پوری ٹیوننگ سے اِس بات کا اطمینان ہوگیا کہ انتخابات کا انعقاد تو ناگزیر ہے، کیونکہ اگر آپ کو پتہ ہو کہ انتخابات نہیں ہونے جا رہے تو آپ پلاس پانا لے کر گاڑی کے انجن کی ٹیوننگ نہیں کرنے بیٹھ جاتے۔ ورنہ یہ پیچیدہ کام تو فوجی انقلاب کے بعد بھی کیا جاتا۔
لیکن ایک بہت ہی خطرناک جگاڑ کیا گیا جس کی وجہ سے پورا ملک کراچی کو حقارت سے دیکھ کر ہنسی اُڑاتا ہے اور کراچی تو جیسے پورے ملک سے الگ ہوجاتا ہے۔
الطاف کی دہشت اور لڑکوں کے خوف میں مبتلا ایم کیو ایم کے زیادہ تر لوگ آکر ایسی جگہ پھنسے ہیں جہاں نہیں پھنسنا چاہیے تھا: اب اِنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ کس کی راہ چنی جائے جو اگلے انتخابات میں دھاندلی کرنے میں ان کی مدد کرے۔
آنے والے ہفتوں میں تو مزید طوفان ٹکرانے کو ہیں۔
اِس کے علاوہ دو اشارے بھی یہی ثابت کر رہے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد تو ہو کر رہے گا: پہلا بغیر کسی اطلاع کے اسلام آباد کا گھیرا اور مشرف کے جوکروں کا ٹولہ۔
اسلام آباد گھیراؤ کا مقصد ن لیگ کو حاصل دائیں بازو کی حمایت کا خاتمہ کرنا ہے۔
قادری کی پھانسی کے بعد اکٹھا ہونے والے اور انتخابی قانون میں ترمیم، جو فوراً واپس لے لی گئی، کے بعد چستی اور پھرتی پانے والے اِن اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے والوں کے نئے نویلے کلب نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
جبکہ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وہ لوگ اِس شور کو انتخابی شور کے طور پر جتانے کی کوشش کر رہے ہیں، اِس کے ساتھ ساتھ انتخابات میں اپنا اثر اور اپنی اہمیت جتانے کے لیے انتہائی دائیں بازو کے گستاخی مخالف حلقے کی تیاری میں بھی لگے ہوئے ہیں۔
ان کے درمیان باہمی ربط نہ ہونے کے برابر ہے، اُن کے پاس منشور جیسی کوئی چیز نہیں، اور ایسے جانور کے زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کا معمولی چانس بھی نظر نہیں آتا، لیکن یہ پوری ہل چل اِس کھیل کا یقین دلاتی ہے جو انتخابات کی سمت میں گامزن ہے۔
اور پھر ہے مشرف کے جوکروں کا ٹولہ۔
اپنا مذاق اب صرف خود ہی بنانے والے مشرف کو سیاست سے دوری کے علاوہ اِس ادارے سے کنارہ کش کیے جانے کا بھی خوف ستانے لگا ہے جس ادارے نے اُنہیں بنایا تھا۔
اور اگر فوراً بعد ’نو-الیکشن‘ آپریشن سچ ثابت ہوا تو یہ مشرف کا کاغذ پر انتخابی اتحاد بنانے سے بھی زیادہ اُن کے لیے رسوائی کا باعث ہوگا کیونکہ اِس کا مطلب ہوگا کہ مشرف کو کچھ پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔
خوش ہوجائیے، بے ڈھنگے پاکستانی اسٹائل میں کہ اِس ہفتے میں ہم غالباً یہ جان چکے ہیں کہ انتخابات نہ ہونے کا آپشن نہیں رہا۔
مگر ایک سوال اب بھی پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کب منعقد ہوں گے۔
وقت پر انتخابات کروانا نواز کیمپ کی ہمیشہ سے ترجیح رہی ہے۔ آپ شرط لگا سکتے ہیں کہ زرداری آخری راؤنڈ میں بازی لے گئے ہیں، نواز کو گوارا ہی نہیں کہ زرداری واحد سویلین ہو جسے یہ اعزاز حاصل ہو۔
لیکن فیصلے کا تعلق ایک قدرے بڑی چیز سے ہے: میثاقِ جمہوریت
90ء کی دہائی میں حاصل ہونے والا سبق یہ تھا کہ اگر تسلسل نہیں ہوگا تو استحکام بھی نہیں ہوگا اور تسلسل کا مطلب تھا معاملات کو مختلف انداز سے چلانا: پارلیمان کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے۔
معزولی اور ن لیگ کے اندر جانشینی کو لے کر جاری جدوجہد کی وجہ سے وقت پر انتخابات کے لیے کیس مضبوط ہوا ہے۔ وقت پر انتخابات کا مطلب ہے ن لیگ کے پاس اپنے مسائل حل کرنے کے لیے زیادہ وقت۔
لیکن رواں ہفتے انتخابات وقت پر کروانے کے حامی کیمپ کو ایک غیر متوقع حوصلہ ملا ہے: عدلیہ کا غصہ۔
نواز کے سیاسی حملوں کا جواب دینے میں جذباتی بنی بیٹھی عدالت نے نادانستہ طور پر نواز کی واپسی کا راستہ دکھا دیا ہے۔
وہ ایک ایسے قانونی کمزوریوں میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے صرف پارلیمانی راستہ ہی لیا جاسکتا ہے۔ آئینی ترمیم کے ذریعے نااہلی کی شق کو ختم کرنا یا پھر دوبارہ انتخابات میں کامیابی اور تازہ دم سیاسی سرمایے کو استعمال لاتے ہوئے واپسی کی راہ ہموار کرنا۔ نواز کو ضرورت ہے لڑنے کے لیے ایک دشمن کی۔
ایک دشمن جسے نواز لڑائی میں بے ایمان اور غیر منصفانہ دکھا سکتا ہو تاکہ ووٹر اُن کے ساتھ ہی رہیں۔ پی ٹی آئی تو دشمن نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ تو ووٹوں کے لیے مدِمقابل ہے۔ اب بچے ہیں لڑکے یا پھر عدالت۔
لیکن لڑکوں کی ایک حد تک ہی مخالفت کرسکتے ہیں۔ اُن کے پاس تقریباً تمام تر ساز و سامان ہے اور چالوں کی ایک بھاری بوری بھی ہے اور اگر سیاسی دشمن حد پار کرنے لگے تو نظام لپیٹنے کی دھمکی بھی دے سکتے ہیں، جبکہ عدالت ادارتی طور پر اپنے غیر سیاسی کردار کے ہاتھوں مجبور ہے، جسے سیاست میں اترنے کے لیے اکسایا گیا ہے اور اِس چیز کا سیاستدان کو ہی فائدہ حاصل ہوا۔
اِس ہفتے، عدالت نے نواز کو یاد دلایا کہ وہ دو مختلف الٹی گنتی گننے والی گھڑیوں کو آپس میں جوڑ سکتے ہیں: احتسابی مقدمات اور انتخابات کی گھڑی۔
اگر انتخابات کی گھڑی اگلے اگست پر رکی رہی تو تب تک نواز شریف ہنسی خوشی عدالت کو مقدمہ چلانے کے عمل کو مقدمہ چلانے کے عمل جیسا بنانے پر اکسا سکتے ہیں۔ اگلے اگست تک ہر دو ماہ بعد بجلی گرنے سے سیاسی تحائف حاصل ہوسکتے ہیں۔
ہمدردی کی چال چلنے سے لوگوں کے خادم سیاستدان اور اُس کی راہ میں آنے والے ناروا اداروں کے درمیان ایک بڑا ہی خوبصورت فرق نمودار ہو جائے گا۔
اِس طرح ن لیگ کے اندر جاری جانشینی کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ لڑکوں کے ہاتھوں براہِ راست حملے کی زد میں آنے والے رہنما سے زیادہ آسان عدالتوں میں گھرے رہنما کے ساتھ ریلی نکالنا آسان ہے۔
مگر جو نواز کے لیے اچھا ہے وہ شاید ہم سب کے لیے اچھا نہ ہو۔ جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی زیادہ ’نو الیکشن ایٹ آل‘ (انتخابات کا بالکل بھی انعقاد نہیں) کا آپشن حقیقت کا روپ لینے لگے گا۔
اگست بھلے ہی ہماری عمر گزرجانے سے پہلے آجائے گا، لیکن ہوسکتا ہے کہ اُس وقت ایسا ہی محسوس ہو جیسے عمر بیت چکی۔ اگر تسلسل کو بیانوں کی نذر کردیا، کہ جس میں ہاتھا پائی بد سے بدتر اور بے قابو ہوجاتی ہے تو ممکنہ بغاوت کرنے والے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے۔
قبل از وقت انتخابات واضح طور پر مسائل سے بچنے کا ایک محفوظ حل ہے۔
لیکن یہ آپشن بھی ہمیشہ دستیاب نہیں ہوسکتا۔ اگر قبل از وقت انتخابات نہیں کروائے گئے تو اگلے سال کی ابتداء میں یہ آپشن نہیں رہے گا کیونکہ آخری وقت میں انتخابات کے انعقاد کو ایک بُری چال کے طور پر دیکھا جائے گا۔
وقت پر انتخابات کروانے کی کوشش میں کہیں نواز شریف ’نو الیکشن ایٹ آل‘ کی راہیں ہموار نہ کر بیٹھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 12 نومبر 2017 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں