• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

اسلام آباد: دھرنے کے باعث شہریوں کے لیے اذیت ناک صورتحال

شائع November 12, 2017
فیض آباد انٹرچینج پر موجود چوکی پر رینجرز پولیس کی تعیناتی مشکلات کا شکار ہے، فوٹو / ڈان
فیض آباد انٹرچینج پر موجود چوکی پر رینجرز پولیس کی تعیناتی مشکلات کا شکار ہے، فوٹو / ڈان

اسلام آباد: ختم نبوت کے قانون میں مبینہ ترمیم کے خلاف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے مظاہرین کا فیض آباد انٹرچینج پر احتجاج جاری ہے، مسلسل چوتھے روز بھی اہم شاہراہ بند ہونے کے باعث مقامی لوگوں، مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

تحریک لبیک پاکستان یا لبیک یارسول اور پاکستان سنی تحریک کی جانب سے ختم نبوت کے قانون میں مبینہ ترمیم کرنے کے خلاف احتجاج جاری ہے، مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اپنی وزارت سے مستعفی ہوں۔

پنجاب سے چلنے والا مذہبی جماعت کا قافلہ اسلام آباد مارچ کرنے کے لیے فیض آباد پہنچا تو انتظامیہ نے حفاظتی اقدامات کے تحت انٹرچینج سے آگے جانے والی شاہراہ کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا جس کے بعد مظاہرین نے اُسی مقام پر احتجاجی کیمپ نصب کردیا۔

سنی تحریک کے ترجمان نعیم رضا نے ڈان کو بتایا کہ اگر حکومت نے اتوار کے روز تک مطالبات تسلیم نہ کیے تو ایئرپورٹ روڈ اور موٹر وے کو بند کردیا جائے گا، ہمارا مطالبہ ہے کہ وفاقی وزیرقانون مستعفی ہوں مگر انتظامیہ ہمارے مطالبے کو تسلیم نہیں کررہی۔

مزید پڑھیں: مظاہرین اور عدم منصوبہ بندی: اسلام آباد کا نظامِ زندگی مفلوج

وزارتِ داخلہ کے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ڈان کو بتایا کہ ’یہ مسئلہ 13 نومبر بروز پیر تک حل ہوجائے گا‘۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ پیر سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان زمینی رابطہ اور نظام زندگی مکمل طور پر بحال ہوجائی گی کیونکہ حکومت اس ضمن میں اپنی تمام تر کاوشیں بروئے کار لارہی ہے۔

دریں اثنا احتجاجی مظاہرین نے اسلام آباد ایکسپریس وے، مری روڈ کو بند کیا اور رکاوٹیں عبور کرنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور کے خلاف سخت زبان استعمال کی، فیض آباد انٹرچینج کو مظاہرین نے گزشتہ 5 روز سے بند کیا ہوا ہے۔

اہم شاہراؤں کے بند ہونے کی وجہ سے مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے فیض آباد انٹرچینج پر موبائل اور انٹرنیٹ سروس کو بھی معطل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام سخت ذہنی اذیت کا شکار ہے۔

راولپنڈی اور اسلام آباد کے ٹریفک پولیس اہلکار جڑواں شہروں کے لیے آنے اور جانے والی گاڑیوں کو متبادل روٹ پر بھیجنے میں مدد فراہم کررہے ہیں، اسلام آباد اور راولپنڈی کا سفر کرنے والے پشاور روڈ، آئی جے پی پرنسپل روڈ، مری روڈ ، ڈبل روڈ اور 9 ایونیو سے براستہ کشمیر ہائی وے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا:خادم حسین رضوی کےخلاف بچے کی ہلاکت کا مقدمہ درج

راولپنڈی پولیس نے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ اور 250 کارکنان کے خلاف تھانہ گوجر خان میں مقدمہ درج کرلیا ہے تاہم اُن میں سے ابھی تک کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مظاہرین کے خلاف اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں سڑک بلاک کرنے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر 24 سے زائد مقدمات درج ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔

اسے بھی پڑھیں: حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے مطالبات مسترد کردیئے

واضح رہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے تو انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا جاتا ہے۔

مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی اسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

سٹرک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ٹریفک پولیس سپرنٹینڈنٹ اسلام آباد ملک مطلوب کا کہنا تھا کہ حکومت مظاہرین کے ساتھ معاملے کو افہام و تفہم سے حل کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہ بہت حساس نوعیت کا معاملہ ہے، احتجاج کی صورت میں پولیس کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں اور ہمیں روزانہ تقریباً 4 لاکھ 50 ہزار گاڑیوں کو سنبھالنا ہوتا ہے۔


یہ خبر 12 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024