• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

شہزادہ ولید کی گرفتاری کےباوجود دنیا میں معاشی زلزلہ کیوں نہ آیا؟

شائع November 10, 2017 اپ ڈیٹ November 11, 2017

سعودی عرب میں 11 شہزادوں، 4 وزیروں اور متعدد کاروباری شخصیات کی گرفتاری دنیا کے لیے بڑی خبر تھی، گرفتار ہونے والی تمام شخصیات سعودی عرب کے حوالے سے تو اہم ہی تھیں لیکن شہزادہ ولید بن طلال کی گرفتاری پر بین الاقوامی میڈیا ہیجانی کیفیت کا شکار تھا۔

گرفتاریوں کی خبر کے ساتھ ہر میڈیا گروپ نے شہزادہ ولید کے دنیا بھر میں پھیلے کاروبار پر الگ سے خبریں شائع کیں۔ عالمی میڈیا کی خبروں اور تبصروں کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں اور تیل کی قیمتوں میں وقتی بھونچال بھی دیکھنے میں آیا اور شہزادہ ولید کی گرفتاری کی خبر کے بعد تیل کی قیمتیں 2 سال کی بلند ترین سطح پر آگئیں۔

لیکن حیران کن طور پر قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجہ ولید بن طلال کی گرفتاری سے زیادہ سعودی عرب کی غیر یقینی سیاسی صورت حال تھی۔ وقتی ہیجان کی وجہ سے تیل کی قیمتیں جون 2015 کے بعد پہلی مرتبہ 64 ڈالر فی بیرل سے بڑھ گئیں۔ مگر مارکیٹ کا یہ ردِعمل زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور قیمتیں واپس نیچے آنا شروع ہوچکی ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ قیمتیں چند دن میں دوبارہ 50 ڈالر فی بیرل کی طرف لوٹ آئیں گی۔

پڑھیے: سعودی عرب میں غیر معمولی فیصلوں کے پیچھے چُھپی اصل کہانی

شہزادہ ولید کی گرفتاری پر امریکی میڈیا نے ٹوئیٹر، سٹی بینک، ٹونٹی فرسٹ سنچری فوکس میڈیا گروپ سمیت بڑی کمپنیوں پر اثرات کی شہ سرخیاں جمائیں، مگر جذباتی اور ہیجانی کیفیت ختم ہوجانے کے بعد میڈیا زمینی حقائق کی طرف لوٹ آیا ہے۔

اِس تمہید کے بعد ہم آپ کو اب یہ بتاتے ہیں کہ شہزادہ ولید نے کن کن اداروں میں سرمایہ کاری کی ہوئی تھی اور اُن کی گرفتاری کے بعد وہاں اب کیا صورتحال ہے۔

ٹوئنٹی فرسٹ سنچری فوکس

امریکی میڈیا نے ٹوئنٹی فرسٹ سنچری فوکس اور اُس کے مالک روپرٹ مرڈوک کو مشکلات کی پیش گوئی کی۔ مگر میڈیا میں خبروں کی اشاعت کے بعد حقیقت کھلی اور پتہ چلا کہ شہزادہ ولید گرفتاری سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہی اِس گروپ میں موجود اپنے شیئرز بیچ چکے تھے۔ اِس حقیقت سے پردہ اُٹھنے کے بعد چند ایک میڈیا گروپوں نے وضاحت بھی شائع کی۔ جس کے بعد اب روپرٹ مرڈوک کو ایک ہی مشکل ہوسکتی ہے، اور وہ یہ کہ اُنہیں کمپنی پر گرفت حاصل کرنے کے لیے شاید شہزادہ ولید کی حمایت حاصل نہیں ہوسکے گی۔

لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ شہزادہ ولید نے شیئرز کس کو فروخت کیے اور ووٹنگ کے حقوق کس کے پاس ہیں؟ اگر ووٹنگ کے حقوق روپرٹ مرڈوک کے کسی مخالف کے پاس گئے تو یہ کمپنی کا اندرونی معاملہ ہے، جس میں شہزادہ ولید اب تک مرڈوک کے مددگار تھے۔

ٹوئیٹر

شہزادہ ولید کی گرفتار کے بعد سب سے زیادہ بات اِس حوالے سے ہورہی تھی کہ اُنہوں نے تو ٹوئیٹر میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور سعودی حکومت کے اِس عمل سے ٹوئیٹر کو بڑا نقصان ہوسکتا ہے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس کی اہم ترین وجہ یہ تھی کہ سوشل میڈیا سائٹ ٹوئیٹر میں ولید بن طلال صرف 5 فیصد شیئرز کے مالک ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ٹوئیٹر کے شیئرز کو کچھ بھی فرق نہیں پڑا۔

سٹی بینک

جی ہاں، سٹی بینک میں شہزادہ ولید کی بڑی سرمایہ کاری ہے، جو اُنہوں نے عالمی معاشی بحران کے دوران سٹی بینک میں کی تھی اور 2008 میں جب سٹی بینک کی بقا کو خطرہ لاحق تھا تو شہزادہ ولید نے اِس میں اپنے سرمائے کو مزید بڑھایا۔ سٹی بینک میں شہزادہ ولید کی سرمایہ کاری دراصل بین الاقوامی مارکیٹ میں پہلی اور آخری کامیاب سرمایہ کاری تھی۔

یہ 1991 کی بات ہے جب انہوں نے اِس بینک میں مزید 50 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کی، جس سے اُنہیں بڑا مالی فائدہ ہوا اور سنہ 2000 میں سٹی بینک میں اُن کے حصص کی قیمت 10 ارب ڈالر ہوگئی تھی۔ سٹی بینک میں خطرہ مول لے کر کی گئی سرمایہ کاری نے ہی شہزادہ ولید کو دنیا کی نظروں میں بڑا سرمایہ کار ثابت کیا۔

آن لائن کمپنیوں میں سرمایہ کاری

شہزادہ ولید نے سنہ 2000 میں آن لائن کمپنیوں کے غیر معمولی عروج کے زمانے میں ویب سائٹس اور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بھی سرمایہ لگایا۔ امریکا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی فرم ’ایپل‘، چین کی آن لائن شاپنگ کمپنی ’جے ڈی ڈاٹ کام‘، آن لائن ٹیکسی سروس ’اوبر‘ کی مدِمقابل کمپنی ’لفٹ‘ میں بھی سرمایہ کاری کی۔ ان کمپنیوں سے ولید بن طلال کی توقعات پوری نہ ہوئیں اور اُنہوں نے 2005 میں ’ایپل‘ سے اپنے سرمائے کو نکال لیا۔ اُن کی گرفتاری سے ’جے ڈی ڈاٹ کام‘ اور ’لفٹ‘ کے شیئرز میں بھی حیران کن طور پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔

اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شہزادہ ولید کی تمام تر سرمایہ کاری اِن کی کمپنی ’کنگڈم ہولڈنگز‘ کے ذریعے ہوتی ہے۔ شہزادہ ولید بن طلال نے اپنی کمپنی پر پُراسراریت کا پردہ ڈال رکھا ہے اور اُن کی کمپنی کی ویب سائٹ یا کسی بھی اسٹاک مارکیٹ میں اُن کی اصل مالیت ظاہر نہیں کی گئی، کیونکہ شہزادہ ولید نے اِس کمپنی کو ایک عرصہ تک مکمل اپنی ملکیت میں رکھا، اور بعد میں 5 فیصد شیئرز ریاض کی اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کئے۔

مزید پڑھیے: ’گرفتار افراد کے صرف نجی بینک کھاتے منجمد کیے ہیں‘

بلومبرگ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے شہزادہ ولید سے کئی بار درخواست کی کہ وہ اپنی پرائیویٹ اور پبلک سرمایہ کاری کی تفصیلات فراہم کریں لیکن ہر بار ’کنگڈم ہولڈنگز‘ کی طرف سے ایک ہی جواب ملا کہ اِس کمپنی کی مالی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔

اگرچہ ولید بن طلال کی گرفتاری سے عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں تو کوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑا لیکن ریاض کی اسٹاک مارکیٹ اور ولید بن طلال کے ملکیتی شیئرز کو بڑا جھٹکا ضرور لگا ہے۔ شہزادے کی ملکیت ’کنگڈم ہولڈنگز‘ کے شیئرز اُن کی گرفتاری کے بعد 7.5 فیصد تک گرے اور 10 ارب ڈالر حجم کی اِس کمپنی کو ایک دن میں تقریباً 75 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ مجموعی طور پر 4 دن میں ’کنگڈم ہولڈنگز‘ کے شیئرز کی قیمتیں 21 فیصد تک گریں۔ سعودی عرب کی نیشنل انڈسٹریلائزیشن کمپنی جس میں ولید بن طلال کے 6.2 فیصد شیئرز ہیں، اُس کے حصص بھی 2 فیصد گرے۔

سٹی بینک کی مدد سے ولید بن طلال نے بینک سعودی فرانسیسی میں 16.2 فیصد شیئرز لیے، اور گرفتاری کے بعد ریاض کی مارکیٹ میں اِس بینک کے حصص بھی 0.5 فیصد گرے۔

اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اور سرمایہ کاروں میں خوف کے بعد سعودی وزیرِ تجارت نے سرمایہ کاروں کو ذاتی طور پر یقین دہانی کروائی ہے کہ کاروبار اور ہر طرح کی جائز سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، لیکن اِس یقین دہانی کے باوجود اب بھی سعودی عرب میں سرمایہ کار ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

شہزادہ ولید بن طلال کو گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر ’رٹز ہوٹل‘ میں رکھا گیا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ولید بن طلال رٹز کے حریف ہوٹل ’چین فور سیزنز‘ کے سعودی عرب میں مالک ہیں۔ شہزادہ ولید اِس کے علاوہ نیویارک کے ’پلازہ ہوٹل‘ اور فرانس کے ’جارج پنجم ہوٹل‘ میں بھی ملکیتی شیئرز رکھتے ہیں۔

پراپرٹی میں بھی ولید کی وسیع سرمایہ کاری ہے جن میں نمایاں لندن کی پراپرٹی اور ریاض میں کنگڈم کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز کے علاوہ اُن کا ریاض کے نواح میں 120 ایکڑ کا فارم ہاؤس ہے، جس میں چڑیا گھر، ملازمین کے کوارٹرز اور کئی مصنوعی جھیلیں بھی ہیں۔

شہزادہ ولید کی دولت کا اندازہ فوربز میگزین کی رواں سال کی رپورٹ میں 17 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ دولت کا تخمینہ اندازوں اور مارکیٹ ذرائع سے ہی لگایا گیا کیونکہ ولید بن طلال اپنے کاروباری معاملات پر رازداری کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں، بلکہ اُن پر الزام ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے دولت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، جس کا ثبوت 2013 کی فوربز میگزین کی رپورٹ پر جھگڑا ہے۔ فوربز نے شہزادہ ولید کی دولت کا اندازہ 2013 میں 9.6 ارب ڈالر لگایا، جس پر ولید بن طلال نے فوربز پر دولت کم دکھانے کا الزام لگایا اور کیس عدالت لے گئے جہاں 2 سال تک مقدمہ چلنے کے بعد انہوں نے معاملے کو عدالت سے باہر ہی حل کرلیا۔

اِس کے بعد کی رپورٹوں میں شہزادہ ولید کی دولت 24 ارب ڈالر تک بھی بتائی گئی لیکن اب اِس میں نمایاں کمی دکھائی جا رہی ہے۔

شہزادہ ولید کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کی حمایت کر رہے تھے، قطر سے مقاطعہ اور وژن 2030 کی حمایت میں آگے آگے تھے، اور اِسی وجہ سے اُن کی گرفتاری پر حیرت کا اظہار بھی کیا گیا لیکن شاید محمد بن سلمان 2009 میں فوربز میں ولید بن طلال کا شائع ہونے والا انٹرویو ابھی تک نہیں بھول پائے، جس میں ولید بن طلال نے بادشاہت کی خواہش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب بادشاہت کے لیے اُن سے مزید صبر نہیں ہورہا۔

شہزادہ ولید کو اِس صدی کے آغاز پر بڑے بڑے میڈیا ہاؤس ’عرب وارن بفٹ‘ قرار دے رہے تھے، لیکن اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ اتنی اہمیت کے حامل فرد کی گرفتاری پر بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑی معاشی ہلچل کیوں نہیں مچی؟ سی این بی سی کے ایک پروگرام میں سعودی عرب میں امریکا کے سابق سفیر رابرٹ جارڈن نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ولید بن طلال کی سعودی عرب میں گرفتاری ایسے ہی ہے جیسے امریکا میں وارن بفٹ یا بل گیٹس کو گرفتار کر لیا جائے۔

لیکن اِس حیرت کا جواب امریکا کے نامور ماہرِ معیشت رچرڈ گرین کے تجزیے میں موجود ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر سعودی حکام ولید بن طلال کی ’کنگڈم ہولڈنگز‘ کو جزوی یا مکمل طور پر ختم کرکے سرمایہ واپس بھی لے لیں تو امریکی مارکیٹ پر شاید معمولی سا اثر پڑے، کیونکہ ولید بن طلال کے اثاثوں کا تخمینہ 10 ارب ڈالر ہے جبکہ وارن بفٹ کے اثاثے برکشائر ہیتھ وے میں 460 ارب ڈالر اور وین گارڈ گروپ کے اثاثے 4.5 ٹریلین ہیں۔

یقیناً 10 ارب ڈالر ایک بڑی رقم ہے، لیکن اگر اِس رقم کا موازنہ وارن بفٹ یا اِس جیسے کسی اور سرمایہ کار کے ساتھ کیا جائے تو یہ کوئی بڑی رقم نہیں۔ ہاں لیکن اگر کچھ ایسے حالات پیدا ہوں کہ شیئرز اچانک فروخت کرنے پڑجائیں تو کسی بھی کمپنی کو دھچکا لگ سکتا ہے لیکن ایسی فروخت کو امریکی کمپنیوں پر عدمِ اعتماد کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

WAJID Ali Nov 12, 2017 07:49am
یہ بادشاہ نما لو سیفر سعودی حکومت کے زوال کی پہلی اور آخرئ کیل ثابت ہوگا۔۔۔۔بادشاہت کی شاید آخری ہچکی ہو

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024