نئی حلقہ بندیوں پر پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس پھر بے نتیجہ
اسلام آباد: مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت نئی حلقہ بندیوں سے متعلق پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ایک بار پھر بے نتیجہ ختم ہوگیا۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں شاہ محمود قریشی، نوید قمر، شیخ رشید، غلام احمد بلور، محمود خان اچکزئی، صاحبزادہ طارق اللہ، آفتاب شیر پاو، ایس اے اقبال قادری، شیخ صلاح الدین، نعیمہ کشور، طارق بشیر چیمہ اور اعجاز الحق نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم پر حتمی مشاورت کی گئی۔
اجلاس میں شیخ رشید اور محمود خان اچکزئی کے درمیان جھڑپ بھی دیکھنے میں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: نئی حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کے تحفظات دور نہ ہوسکے
اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا کہ ’پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، تاہم اس بات پر تمام سیاسی رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، جبکہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ 1998 کی مردم شماری کے تحت الیکشن نہیں ہو سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) بھجوایا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ حکومت کرے گی، پیپلز پارٹی ساتھ نہ دے تو سینیٹ سے آئین میں ترمیم کا بل پاس نہیں ہوسکتا جبکہ عبوری سیٹ اپ میں توسیع مناسب نہیں۔‘
انہوں نے اجلاس میں شیخ رشید اور محمود اچکزئی کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام رہنماؤں نے خوشگوار ماحول میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔‘
الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ارشد خان نے کہا کہ ’حکومت کو 10 نومبر تک نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئین میں ترمیم کا وقت دے رکھا ہے، لیکن اگر حکومت مزید 10 روز تک بھی آئین میں ترمیم کر لے تو حلقہ بندیوں کا کام شروع کردیں گے۔‘
مزید پڑھیں: پارلیمانی کمیٹی نے الیکشن بل 2017 کی منظوری دے دی
ان کا کہنا تھا کہ ’حلقہ بندیوں کے لیے 4 ماہ کا وقت درکار ہے، وقت پر مردم شماری کی عبوری رپورٹ مل جائے تو انتخابات بروقت کرا سکتے ہیں لیکن اگر وقت پر فیصلہ نہ کیا گیا تو پھر انتخابات کرانا مشکل ہوگا۔‘
اجلاس سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’حلقہ بندیوں پر آئین میں ترمیم میں کسی پیش رفت کا امکان نظر نہیں آرہا، پیپلز پارٹی کے تحفظات دور ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے، جبکہ حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے مطلوبہ ارکان کی تعداد نہیں۔‘
یاد رہے کہ وزیرقانون زاہد حامد نے 2 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیمی بل پیش کیا تھا جس کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے مسترد کردیا تھا تاہم حکومتی اراکین کی زیادہ تعداد ہونے پر بل کو منظور کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں حلقہ بندیوں پر آئینی ترمیمی بل لانے کا فیصلہ
قومی اسمبلی سے بل منظور ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے اسے غیر آئینی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت الیکشن ملتوی کروانے کے لیے سازشی ہتھکنڈے استعمال کرنے لگی جو کسی صورت قبول نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تشکیل کردہ پانچ رکنی کمیٹی نے منگل کے روز اپوزیشن جماعتوں کے اراکین سے ملاقاتیں کیں اور تحفظات دور کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ عام انتخابات اگلے برس اگست میں ہی منعقد کیے جائیں گے۔