• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:36pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:38pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:36pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:38pm

موسمیاتی تبدیلی: پاکستان میں پانی کی قلت شدید ہوگئی

شائع November 6, 2017

اسلام آباد: وزیر آبی وسائل سید جاوید علی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی کی قلت پیدا ہوئی جو دسمبر تک جاری رہے گی۔

قومی اسمبلی میں تحریری جواب جمع کراتے ہوئے وزیر آبی وسائل نے کہا کہ ملک بھر میں پانی کا بحران ستمبر سے شروع ہوا، انڈس ریوَر سسٹم اتھارٹی (ارسا) آئندہ دو ماہ میں مزید بحران کی پیش گوئی کی ہے، جس کے باعث دسمبر تک پانی کی قلت برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ دو ماہ تک تمام دریاؤں کا بہاؤ معمول سے کم ہوگا، آئندہ ربی کے موسم میں پانی کی 20 فیصد قلت کا سامنا ہوگا جبکہ ربی سیزن کے لیے پانی کی قلت میں مزید اضافے اور فصل متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

سید جاوید علی نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ ملک کے چار بڑے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں 9 ہزار 600 کیوسک کمی ہوئی، دریاؤں میں اس وقت پانی کا بہاؤ 48 ہزار 300 کیوسک ہے، جبکہ تاریخی طور پر پانی کا اوسط بہاؤ 57 ہزار 900 کیوسک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں نئے ذخائر کی تعمیر سے پانی کی قلت سے بچا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پانی کی جنگ: پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ملک کے سب بڑے پانی کے ذخیرے منگلہ ڈیم میں پانی کی شدید قلت کے باعث پانی کی رسائی کو فوری طور پر روک دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار بھی بند ہو گئی۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (اسرا) کا کہنا تھا کہ پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے مطالبے کے بعد منگلہ پاور ہاؤس میں بجلی کی پیداوار کو فوری طور پر روک دیا گیا جس کا مقصد پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرکے نئی فصل کو بچانا ہے۔

ماہرین آبی وسائل کے مطابق پاکستان کے پالیسی سازوں میں متوقع پانی کی قلت سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے سبب ملکی سیکیورٹی، استحکام اور ماحولیاتی پائیداری خطرے کا شکار ہے۔

واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سابق چیئرمین شمس الملک نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ 'ڈیولپمنٹ ایڈووکیٹ پاکستان' میں شامل پانی کے سیکیورٹی خدشات کو اجاگر کیا۔

مزید پڑھیں: موسمی تبدیلی، پانی کی قلت سے صحرائی رقبے میں اضافہ

شمس الملک کے مطابق پاکستان میں پانی سے متعلق پالیسی موجود نہیں اور اہم پالیسی ساز پاکستان کے آبی وسائل کے 'غائبانہ جاگیردار' بنے ہوئے ہیں، اس غائبانہ جاگیرداری نظام کے باعث پانی ان افراد کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے جبکہ غریب اپنا حصہ حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

سابق چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ وزارتِ پانی و بجلی کی خواہش پر آبی وسائل کی ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی تاہم بدقسمتی سے وفاقی کابینہ اس کا جائزہ لینے اور اسے منظور کرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکی۔

کارٹون

کارٹون : 31 اکتوبر 2024
کارٹون : 30 اکتوبر 2024