شاہ سلمان کے دورِ اقتدار کا سعودی عرب
شاہ سلمان کی جانب سے تین سال قبل اپنے بھائی شاہ عبداللہ کے بعد سعودی فرماں روا کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سعودی عرب میں اہم تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ چند ایسے اقدامات اٹھائے گئے جس پر دنیا میں اسے سراہا بھی گیا جبکہ ناقدین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
اپنی حکمرانی کے دوران شہزادوں، وزیروں اور کاروباری شخصیات سمیت درجنوں افراد کی گرفتاریوں کے علاوہ شاہ سلمان نے دورِ حکومت میں جو اقدامات اٹھائے ہیں ان پر نظر ڈالتے ہیں۔
اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں
شاہ سلمان نے اپنے بھائی اور سابق فرماں روا 90 سالہ شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد 23 جنوری 2015 کو فرماں روا کا منصب سنبھالا۔
انہوں نے منصب سنبھالتے ہی اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کلیدی تبدیلیاں کرتے ہوئے بھتیجے شہزادہ محمد بن نائف کو نائب ولی عہد اور اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو وزیرِ دفاع کے منصب پر فائز کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: کرپشن کے الزام میں کھرپ پتی سعودی شہزادے سمیت 11 گرفتار
بعد ازاں رواں برس جون میں انہوں نے اپنے بیٹے کو مزید آگے لانے اور شہزادہ محمد بن نائف کے اختیار کو کم کرنے کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان کو 31 برس کی عمر میں ولی عہد مقرر کردیا۔
یمن جنگ
مارچ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب فوجی اتحاد نے یمن کے صدر منصور ہادی کی حمایت یافتہ فورسز کی حوثی باغیوں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جاری مہم میں حصہ لیا، اور یمن پر فضائی کارروائی کا آغاز کردیا۔
اس موقع پر اتحادی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سعودی عرب اور اس کی اتحادی فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ریاض تہران تعلقات میں کشیدگی
گزشتہ برس جون میں سعودی عرب نے 47 افراد کو دہشت گردی کے الزام میں موت کی سزا دی جس میں زیادہ تر سنی تھے جن کا تعلق القاعدہ سے تھا تاہم معروف اہل تشیع عالم نمر النمر بھی سزا پانے والوں میں شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران مخالف بیان:تہران کی سعودی شہزادے کو تنبیہ
اس پھانسی کے بعد سعودی عرب کو خلیج میں اپنے روایتی حریف، ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔
عالم کی پھانسی کے بعد تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا جس کے بعد ریاض نے تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کردیئے تھے۔
اقتصادی اصلاحات
اپریل 2016 میں سعودی حکومت نے ’وژن 2030‘ کے نام سے ایک بڑے اصلاحاتی پروگرام کی منظوری دی جس کا مقصد تیل سے منسلک معیشت کو فروغ دینا تھا۔
اس منصوبے میں تیل کی ایک بڑی کمپنی آرامکو کی نجکاری شامل تھی جس کے ذریعے 2 کھرب ڈالر تک کے فنڈز حاصل کیے جانے تھے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب: نائب ولی عہد کا معاشی اصلاحات کا اعلان
2014 کے درمیان میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ریاض کو سبسڈی جاری کرنا پڑی جس کے باعث مختلف بڑے منصوبے التواء کا شکار ہوئے۔
دسمبر 2016 میں سعودی عرب کے قیادت میں پیڑول برآمد کرنے والے ممالک کی ایک تنظیم (او پیک) اور روس کے اتحادی ممالک نے قیمتوں میں اضافے کے لیے خام تیل کی پیدوار کو روکنے پر اتفاق کیا۔
واشنگٹن کے ساتھ معاملات
مئی 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے نئے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز ہی سعودی عرب کے باقاعدہ دورے سے کیا۔
امریکی صدر کے اس دورے کے دوران واشنگٹن اور ریاض کے درمیان 380 ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے، جس میں ایران کے علاوہ دیگر انتہا پسند گروہوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے 110 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
قطر بحران
دہشت گردوں کی معاونت اور ایران سے قریب ہونے کے الزام میں جون 2017 میں سعودی عرب اور مختلف خلیجی ریاستوں نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کردیئے، تاہم قطر نے تمام الزامات کو مسترد کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: قطر کشیدگی: ’بائیکاٹ اور پابندیاں جاری‘
ان ممالک نے دوحہ کے ساتھ ہر سطح پر رابطے ختم کرتے ہوئے اس کے خلاف اقتصادی اور سفارتی پابندیاں عائد کردیں۔
عورتوں کے حقوق کےلیے اقدامات
دسمبر 2015 میں سعودی عرب حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے اور انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔
اسی سال ستمبر میں سعودی فرماں روا نے یہ اعلان کیا کہ طویل عرصے سے خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو جون 2018 میں ختم کردیا جائے گا۔
کچھ روز بعد سعودی فرماں روا نے مزید اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت ہوگی، ایسا سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب: قومی دن پرخواتین کو اسٹیڈیم میں آنے کی اجازت
ساتھ ہی حکام نے خواتین کو دیگر مختلف اسٹیڈیم میں داخلے کی بھی اجازت دے دی، تاہم سعودی خواتین کو تعلیم کے حصول اور سفر کے لیے گھر کے کسی مرد سے اجازت لینا لازمی ہے۔
کریک ڈاؤن
رواں ماہ ستمبر میں حکام نے کارروائی کرتے ہوئے 20 افراد کو گرفتار کیا جس میں مذہبی اسکالر سلمان الاودہ اور اود القرنی بھی شامل تھے۔
اسی حوالے سے معروف سعودی صحافی اور مصنف جمال خشہوگی کا کہنا تھا کہ مسلم بھائی چارگی کی حمایت کرنے پر سعودی اخبار ’الحیات‘ نے ان کے لکھنے پر پابندی عائد کردی تھی۔
سرمایہ کاری، اعتدال پسندی
اکتوبر کے آخر میں ’ڈیوس ان دی ڈیزرٹ‘ کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ریاض نے ہائی ٹیک ’گیگا پروجیکٹس‘ منصوبے سے آگاہ کیا اور سعودی عرب کی ایک بہتر کاروباری منڈی کے حوالے تصویر پیش کی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی میگا سٹی میں لبرل لائف اسٹائل کی پیش کش
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جلد غیر ملکیوں کے لیے ’سیاحتی ویزے‘ جاری کرنا شروع کر دیں گے۔
بشکریہ اے ایف پی
یہ خبر 6 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی