کئی امتحانوں میں کامیابی کے بعد ’یقین کا سفر‘
پتر رب دے بندوں نال آسانیاں پیدا کر رب سوہنا تیری بگڑی بنادے گا!
بے شک رحم کرنا رب کی بے شمار صفات میں سے ایک ہے، وہ خالق ہے اور اپنی مخلوق پر بے پناہ مہربان ہے اور جو لوگ الله کی یہ صفت اختیار کرتے ہیں، آپس میں ایک دوسرے سے مہربانی کرتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آتے ہیں خدا ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے۔
اور بدلے میں اپنی قربت عطا کرتا ہے، اپنی ذات پر یقین عطا کرتا ہے وہ یقین جو انسان کو انسانیت کی معراج پر لے جاتا ہے۔
ایسے ہی موضوع پر بنا پاکستانی ڈرامہ سیریل ’یقین کا سفر‘ آج کل زیر بحث ہے۔
’یقین کا سفر‘ ہمارے معاشرے میں ہونے والے گھناؤنے مظالم، ان کے خلاف ڈٹے رہنے اور خدا کی ذات پر یقین کامل رکھنے کی کہانی ہے۔
پلاٹ:
بیرسٹر عثمان (فرہان علی آغا) کے دو بیٹے دانیال اور اسفند یار ہیں۔ دانیال کی شادی وطن واپسی پر (حرا) سے ہوتی ہے، دانیال پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوتا ہے. گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود دانیال ایک وزیر کے بیٹے کے خلاف اجتمائی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کا کیس لڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
اس لڑکی کو انصاف دلانے کی کوشش میں دانیال نہ صرف اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بلکہ منسٹر کے حواری اس پر الزام لگاتے ہیں کہ دانیال کے اپنی اسسٹنٹ کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اس لئے دانیال نے خودکشی کی۔
دوسری جانب اسفند یار اب ایک قابل ڈاکٹر بن چکا ہے۔
اپنے بھائی کی حادثاتی موت اور اپنی ناکام محبت کا دکھ اسفند یار کو کافی ذمےدار بنا دیتا ہے۔ اسفند یار اپنے خاندان کے ساتھ وادی نیلم منتقل ہوجاتا ہے، جہاں وہ ایک بڑا ہسپتال کھولتا ہے۔
اس ڈرامے کا دوسرا اہم کردار زوبیہ (سجل علی ) کا ہے جس کی ماں کی موت کا سبب اس کے باپ کا وحشیانہ رویہ بنتا ہے۔
اپنی ماں کی بےبس موت کے بعد زوبیہ گھٹن کے ماحول سے نجات پانے کے لئے رمیز (اسفندیار کے دوست) سے شادی کرنے کے غرض سے گھر سے بھاگ جاتی ہے۔
تاہم رمیز کی مکاری سے زوبیہ کو بچا کر اسفند یار اسے واپس گھر چھوڑتا ہے، اس دوران زوبیہ اپنا کالج کارڈ اسفند یار کی گاڑی میں بھول جاتی ہے۔ گھر واپسی پر جہاں اس کا بھائی اسے قتل کی دھمکی دیتا ہے وہاں زوبیہ کے باپ کو احساس ہوجاتا ہے کہ زوبیہ کی غلطی کا ذمےدار اس کا جارحانہ رویہ ہے۔ وہ زوبیہ کو ہاسٹل پڑھنے اور ڈاکٹر بنے بھیج دیتا ہے۔
باپ کی موت کے بعد زوبیہ پشاور اپنی خالہ کے گھر چلی جاتی ہے اور وہاں ڈاکٹر اسفندیار کے ہسپتال میں نوکری کرتی ہے۔
کہانی اس وقت دلکش موڑ لیتی ہے جب زوبیہ کی ملاقات ڈاکٹر اسفندیار سے ہوئی اور وہ فوراً پہچان جاتی ہے کہ ماضی میں اسے بچانے والا اسفندیار تھا، جبکہ دوسری طرف اس حقیقت سے بےخبر بظاہر خودسر ضدی دکھنے والا اسفندیار زوبیہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔
زوبیہ خود کو اسفندیار کے قابل نہیں سمجھتی، اسے ڈر ہوتا ہے کہ اسفندیار حقیقت جاننے کے بعد اس سے نفرت کرنے لگے گا اس شرمندگی سے بچنے کے لیے وہ پہاڑی سے چھلانگ لگا دیتی ہے، جبکہ دوسری طرف ایک پرانی کتاب سے زوبیہ کا کالج کارڈ ملتا ہے اور اسفندیار کے سامنے ساری حقیقت عیاں ہوجاتی ہے وہ زوبیہ سے ملنے دوڑتا ہے اور اسے بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
ڈرامے کا اختتام بہت خوبصورت دکھایا ہے دو مختلف کردار اسفندیار اور زوبیہ زندگی کے کئی امتحان دے کر ایک ساتھ ایک خوبصورت سفر کی طرف گامزن ہیں۔
اس ڈرامے کا ایک قابل ذکر رومانوی سین یہاں دیکھیں:
شائقین بھی اس ڈرامے کو بےحد پسند کرتے نظر آئے۔
انہوں نے کہا کہ ’یقین کا سفر ڈرامے کا سب سے خوبصورت سبق یہی ہے کہ زندگی کبھی نہیں رکتی‘۔
کہانی اور کردار :
فرحت اشتیاق کے ناول سے ماخوذ ڈرامہ"یقین کا سفر" کے مرکزی کرداروں میں سجل علی، احد رضا میر، حرا سلمان، شاز خان اور فرحان علی آغا شامل ہیں، جبکہ اس کی ہدایت شہزاد کشمیری اور پروڈکشن مومنہ درید نے کی۔
ذاتی رائے:
احد رضا میر نے ڈاکٹر اسفندیار کے کردار میں بے شمار دل موہ لیے، ڈرامے کے لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ڈرامہ آئندہ سال ہم ایوارڈ میں بے شمار ایوارڈز اپنے نام کرتا نظر آئے گا۔
اس ڈرامے میں جہاں معاشی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں خدا پر یقین رکھنے کے مثبت نتائج بھی پیش کیے گئے ہیں اور ایک خوبصورت، مخلص پاک محبت کا تصور دے کر شائقین میں اپنی مقبولیت کی جھنڈے گاڑ کر، اسفندیار کے کردار کی یادوں کے ساتھ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں