• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

قائد اعظم کے اپنی بیٹی دینا سے تعلقات کیسے تھے؟

شائع November 3, 2017 اپ ڈیٹ November 7, 2017

قائدِاعظم محمد علی جناح کی اکلوتی بیٹی دینا جناح 98 برس کی عمر میں گزشتہ روز انتقال کرگئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے رُتی جناح کی موت کے بعد دینا جناح کو بڑے ناز و نعم سے پالا اور اُنہیں اِس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا، اِس کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔

دینا جناح نے ابتدائی تعلیم بمبئی کے ایک کانوینٹ اسکول میں حاصل کی۔ دینا اگرچہ بیشتر وقت اپنی نانی کے ہاں گزارتی تھیں لیکن اِس کے باوجود جناح صاحب نے دینا کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے ایک گورننس کو ملازم رکھا تھا۔ جناح صاحب کی پیشہ ورانہ اور سیاسی مصروفیات کی بناء پر اُن کو دینا کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع کم ہی میسر آتے تھے۔ رُتی جناح کے انتقال کے وقت دینا کی عمر ساڑھے 9 سال تھی اور اتنے کم عمر بچے کے لیے یہ صدمہ بہت گہرا تھا۔ جناح صاحب نے اِس صدمے کے اثر کو کم کرنے کے لیے گھر میں اپنی بیٹی کے لیے تفریح طبع کے انتظامات بھی کر رکھے تھے اور وہ دینا کو اکثر شاپنگ کروانے بھی لے جاتے تھے۔

1930 میں جب وہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو فاطمہ جناح اور دینا کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے اور دینا کو لندن کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا اور رہائش کے لیے وہاں ایک مکان بھی خرید لیا۔ لندن میں جناح صاحب کی زندگی کافی پُرسکون تھی۔ ہفتے اور اتوار کا دن وہ اپنی بیٹی کے ساتھ گزارا کرتے تھے۔ جنوری 1934 میں جناح صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کی درخواست پر دوبارہ ہندوستان لوٹے جبکہ دینا اور فاطمہ جناح لندن ہی میں مقیم رہیں۔ 24 مئی 1934 کو اُنہیں ایک بار پھر لندن جانا پڑا اور جب اگلی مرتبہ وہ ہندوستان لوٹے تو فاطمہ جناح اور دینا جناح بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔

ڈاکٹر زیدی کی کتاب پر درج دینا جناح کے دستخط اور شکریہ ادائیگی—سید عمران
ڈاکٹر زیدی کی کتاب پر درج دینا جناح کے دستخط اور شکریہ ادائیگی—سید عمران

دینا بہت شوخ اور چنچل تھیں، وہ فاطمہ جناح سے چھپ چھپا کر ملازمین کو پیسے بھی دیا کرتی تھیں۔ خواجہ رضی حیدر اپنی کتاب رُتی جناح قائداعظم کی رفیقہءِ حیات کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتے ہیں کہ سید عبدالحئی، جو جناح صاحب کے ملازم تھے، اُنہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ محمد علی جناح کے پاس اُس وقت 5 گاڑیاں تھیں۔ دینا جناح کو کار چلانے کا بہت شوق تھا لیکن جناح صاحب مجھے منع کرتے تھے کہ دینا کو کار چلانے کو مت دیا کرو لیکن دینا اکثر مجھ سے ضد کرکے کار لے لیتی تھیں اور بمبئی کے مضافات کی سڑکوں پر بہت تیز ڈرائیونگ کیا کرتی تھیں۔ اُن کو موسیقی اور عمدہ کپڑے پہننے کا بھی شوق تھا جب ہم خریداری کرکے لوٹتے تو محترمہ فاطمہ جناح دینا کے بارے میں دریافت کرتی تھیں کہ وہ کہاں گئی تھیں اور انہوں نے کیا خریدا؟ جناح صاحب بھی اکثر مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا دینا نے کار چلائی تھی مگر میں ہمیشہ جھوٹ بول دیا کرتا تھا۔

خواجہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ کی تنظیم نو کی وجہ سے اُنہیں کئی کئی ماہ بمبئی سے باہر رہنا پڑتا تھا اور اِسی صورت حال میں دینا زیادہ وقت اپنی نانی کے ہاں گزارتی تھیں، اور دینا جناح نے جب امیر و کبیر نوجوان نیول واڈیا سے شادی فیصلہ کیا جو پارسی مذہب ترک کرکے عیسائیت قبول کرچکا تھا، تو ننھیال والوں نے اِس فیصلے کی مکمل حمایت کی حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے یہ صورتحال تشویشناک اور پریشان کن تھی۔

قائدِ اعظم نے بڑی حد تک کوشش کی کہ یہ شادی نہ ہوسکے لیکن دینا نے اُن کی ایک نہ مانی، اور یہ شادی ایک ایسے موقع پر ہوئی تھی جب جناح صاحب برِصغیر کے مسلمانوں کے واحد رہنما تھے اور اُن کی بیٹی ایک غیر مسلم سے شادی کر رہی تھی۔ یہ بات جناح صاحب کے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھی لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دینا کی والدہ رُتی بھی پارسی تھیں اور جناح صاحب کے ذاتی دوست ڈنشا پٹیٹ کی بیٹی تھی۔

دینا جناح، ڈاکٹر زیدی کے ہمراہ—سید عمران
دینا جناح، ڈاکٹر زیدی کے ہمراہ—سید عمران

شریف الدین پیرزادہ کے مطابق جناح صاحب نے رُتی کا رشتہ بہت دلچسپ انداز مین سر ڈنشا پٹیٹ سے طلب کیا تھا، انہوں نے ایک دعوت میں سر ڈنشا سے دریافت کیا کہ بین المذاہب شادیوں کے بارے میں اُن کا کیا خیال ہے تو انہوں نے جواباً کہا کہ یہ ایک اچھا عمل ہوگا، کیونکہ اِس سے مختلف مذاہب کے درمیان نفرتیں اور دوریاں کم ہوں گی۔

اُس موقع پر قائد اعظم نے اُنہیں کہا کہ وہ اُن کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں، جسے سن کر ڈنشا پٹیٹ ہکے بکے رہ گئے اور اُنہوں نے آخری حد تک کوشش کی کہ یہ شادی نہ ہو لیکن یہ شادی ہوکر رہی۔ اِسی طرح جناح صاحب نے بھی کوشش کی کہ دینا کسی طرح اِس شادی سے بعض آجائے لیکن ایم سی چھاگلہ اپنی کتاب روزِز اِن دسمبر Roses in December کے صفحہ نمبر 120 پر لکھتے ہیں کہ جناح صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں دینا سے کہا کہ ہندوستان میں کروڑوں مسلم لڑکے ہیں اور وہ جس کو چاہے منتخب کرلے تب نوجوان لڑکی، جو اپنے والد سے کسی حد تک مشابہہ تھی، نے جواب دیا کہ ابا! ہندوستان میں بھی کروڑوں مسلمان لڑکیاں موجود تھیں تو آپ نے اُن میں کسی ایک کے ساتھ شادی کیوں نہیں کی؟

دینا کے اِس فیصلے کے بعد جناح صاحب نے اپنی بیٹی سے اپنے تعلقات محدود کرلیے تھے لیکن باپ تو آخر باپ ہوتا ہے وہ کبھی کبھار اپنے ڈرائیور عبد الحئی کے ذریعے دینا کی خیریت معلوم کرلیتے تھے۔ 1938 کے آغاز میں دینا کی نیویلی واڈیا سے مسیحی رسوم کے مطابق شادی ہوئی، جناح صاحب شدید علیل تھے، لیکن اُس موقع پر انہوں نے اپنے ڈرائیور سید عبدالحئی کے ذریعے ایک گلدستہ شادی کی تقریب میں بھیجا۔

فضل حق قریشی اپنی کتاب Early days with the Qaid e Azam مطبوعہ 1976 کے صفحہ نمبر 137-136 پر رقم طراز ہیں کہ دینا واڈیا نے 23 اپریل 1970 کو Pakistan Time لاہور کے ایک نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ

’بانی پاکستان نے اسلامی اصولوں کی پاسداری میں اپنے قریب ترین اور عزیز ترین تعلقات کو ترک کردیا۔ انہوں نے اپنے مذہب کے تقدس کی خاطر اپنے خونی رشتوں سے بھی لاتعلقی اختیار کرلی۔ میرے والد عظمت کی علامت تھے۔ ایسی عظمت جس کا الفاظ میں احاطہ کرنا میرے اختیار سے باہر ہے۔ دینا نے نمناک آنکھوں، گلو گیر آواز اور نہایت جذباتی انداز میں نامہ نگار سے کہا کہ میرے والد مجھ سے بہت محبت کرتے تھے لیکن جب میں نے ایک غیر مسلم سے شادی کا فیصلہ کیا تو اُن کو مجھ سے تعلق ختم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔‘

دینا واڈیا کے مطابق جناح نے اُس موقع پر کہا کہ، ’اگر تمہارا فیصلہ ہے تو پھر میرا فیصلہ بھی سن لو۔ یہ شادی تم کو مذہب اسلام سے خارج کردے گی اور اُس کے بعد تم میری بیٹی نہیں رہو گی کیونکہ ترکِ مذہب کے بعد اسلام خونی رشتوں کو بھی قبول نہیں کرتا۔‘

دینا واڈیا نے مزید کہا کہ

’مجھے اِس بات کا اُس وقت المناک ثبوت ملا جب مجھ کو معلوم ہوا کے اُن کے ذاتی احکامات کے تحت مجھے اُس وقت ویزا نہیں دیا گیا جب میں اُن سے اُن کے آخری لمحات میں ملاقات کرنا چاہتی تھی۔ یہ دراصل میرے لیے سزا تھی میرے اُس عمل کی کہ جب میں نے ایام جوانی میں اُن کا دل دکھایا تھا اور اُن کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا تھا۔‘

قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری رسومات کے موقعے دینا جناح فاطمہ جناح و دیگر کے ہمراہ موجود ہیں—تصویر سید عمران
قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری رسومات کے موقعے دینا جناح فاطمہ جناح و دیگر کے ہمراہ موجود ہیں—تصویر سید عمران

دینا اپنے والد کو خطوط بھی تحریر کرتی تھیں اور یہ تمام خطوط قائدِ اعظم اکیڈمی کراچی میں موجود ہیں، اگر کوئی محقق اِس حوالے سے تحقیق کرنا چاہے تو یہ مواد اتنا زیادہ ہے کہ اِس پر جامع کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ دینا نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں رہائش اختیار نہیں کی اور وہ بھارت ہی میں رہیں۔ قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر، خواجہ رضی حیدر نے ہمیں بتایا کہ جناح صاحب کے انتقال کے بعد وہ ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے کراچی آئیں اور کچھ دن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ رہنے کے بعد دوبارہ بمبئی چلی گئیں۔ اُس دوران انہوں نے کسی سے ملاقات نہیں کی۔

عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قائد اعظم نے اپنی بیٹی کو جائیداد سے عاق کردیا تھا لیکن ایسی کوئی بات نہیں بلکہ اُنہوں نے اپنی وصیت میں اپنی بیٹی کے لیے دو لاکھ روپے علیحدہ سے مختص کیے تھے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ انہوں نے بیٹی کا نام نہیں لکھا۔

دینا جناح کے حوالے سے جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جناح صاحب نے اُن کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر دیس نکالا دے دیا تھا اُن کے لیے دینا جناح کا یہ بیان پڑھنا ضروری ہے:

’میرے والد ظاہر دار نہیں تھے بلکہ وہ ایک پُر شفقت باپ تھے۔ میری اُن سے آخری ملاقات بمبئی میں 1946 میں ہوئی۔ وہ نہایت نازک مذاکرات کے لیے دہلی سے بمبئی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ٹیلی فون پر مجھے اور میرے بچوں کو چائے پر مدعو کیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ دینا (دینا جناح کی بیٹی کا نام بھی دینا ہے) پانچ سال کی اور نصلی دو سال کا تھا۔ ہم بیشتر وقت بچوں اور سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے رہے انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان وجود میں آرہا ہے۔ دہلی میں اپنی نا گریز مصروفیات کے باوجود انہوں نے ہمارے لیے تحائف خریدنے کا وقت نکال لیا تھا۔ جب ہم نے اُن کو خدا حافظ کہا تو وہ نصلی کو پیار کرنے کے لیے جھکے اور وہ خاکستری ٹوپی جو اب اُن کے نام سے مشہور ہے، نصلی کو پسند آگئی۔ انہوں نے فوراً ہی وہ ٹوپی اتار کر اپنے نواسے کے سر پر رکھ دی اور بولے، اِسے تم رکھ لو میرے بیٹے۔ ’نصلی‘ آج بھی اُس ٹوپی کو بہت عزیز رکھتا ہے مجھے اُن کی دل جوئی کی یہ ادا یاد ہے کیوں کہ یہ اُن کی اِس محبت کی ایک خصوصیت تھی جو وہ میرے اور میرے بچوں کے لیے اپنے دل میں رکھتے تھے۔‘

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

M Mirza Nov 03, 2017 10:20pm
Very heart touching.
Muhammad Khalid Nov 03, 2017 11:11pm
A great leader.....
Daudpota Nov 04, 2017 10:58am
good effort to disclose relation of a disciplined father of a nation with his own daughter.. very nice writing.. good luck for next blog
muhammad kashif munir bhatti Nov 04, 2017 10:25pm
Great article Mr. Bloch, emotional, thanks for sharing Sir.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024