تنخواہ دار منصور اور سقراط
الیکٹرانک میڈیا کو اردو میں برقی میڈیا کہتے ہیں اور شاید یوں بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم رانوں اور سیاست دانوں پر کڑکتی بجلی بن کر گرتا رہا ہے۔
یہ کوندتی بجلی سب سے پہلے پرویز مشرف پر گری اور اُس وقت گری جب موصوف ’اُڑتی پھروں مست پَون میں‘ گاتے ہواوں میں اُڑ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ قصور اُن کا نہیں تھا، بلکہ وردی اور بھاری بوٹوں سے باہر آکر وہ اتنے ہلکے ہوگئے تھے کہ اُڑنے لگے۔ اِدھر وہ وردی سے باہر آئے اُدھر برقی میڈیا جامے سے باہر آگیا۔
مشرف صاحب سر پکڑے ایوانِ اقتدار اور کمر پکڑے ملک سے باہر چلے گئے۔ اب تو برقی میڈیا اِس زعم میں مبتلا ہوگیا کہ ’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں، جو مجھے چھوئے گا وہ جل جائے گا‘ اور خود کو غرقی میڈیا سمجھنے لگا۔
پڑھیے: خبری گوشت کے تبصراتی کوفتے
اِسے خوش فہمی ہوگئی ہے کہ وہ جسے چاہے غرق کردے گا۔ پھر تو بھیا یہ میڈیا حکم رانوں اور سیاست دانوں کے بیڑے غرق کرنے اور فخر سے سینہ پُھلا کے گانے لگا ’جیو تو ایسے۔‘
سیاست دانوں کی کاغذ کی کشتیاں بارش کے پانی میں ڈبونے کا کھیل کھیلتے کھیلتے یہ نٹ کھٹ بچہ ساحل تک جا پہنچا اور چھپاک چھپاک پانی اُڑاتا سمندر کی اُن حدود تک پہنچ گیا جہاں سے ’آگے جانا منع ہے۔‘ یہاں بلند اور تُندخو لہروں کا سامنا ہوتا ہے، جو ایسے لے جاتی ہیں کہ ’چٹھی نہ کوئی سندیس، جانے وہ کون سا دیس جہاں تم چلے گئے۔‘ بس پھر کیا تھا، ہاتھ جوڑ کر کہنا پڑا جیو تو کیسے؟
غرقی سے آنسو بہاکر عرقی اور پھر اپنی آزادی کا بڑا حصہ قُرق کروا کے قُرقی ہوجانے والے برقی میڈیا کی سب سے زیادہ بجلی بھری پیشکش اُس کے اینکر پرسن ہیں۔ اگرچہ انگریزی لفظ اینکر کا لغوی مطلب لنگر ہے، یعنی جس آلے کی مدد سے بحری جہاز یا کشتی کو باندھ دیا جاتا ہے، لیکن ہمارے میڈیا نے اینکرز سے سیاست دانوں اور حکم رانوں کے ساتھ صحافتی اقدار اور اخلاقیات کا بیڑا غرق کرنے کا کام لیا۔
وہ لنگر معاف کیجیے گا اینکر زیادہ کام یاب ہے جو اپنے شو کو لنگر لوٹنے کا منظر بنادے، ویسے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ٹاک شوز کی میزبانی کرنے والے اینکرپرسن کیوں کہلاتے ہیں؟ بھئی لنگر کو اُن پروگراموں سے کیا مناسبت؟ بہت سوچا، عقل کے ناتواں گھوڑے دوڑائے، جو کچھ ہی دور جاکر ہانپنے لگے اور پلٹ کر یہ خبر لائے کہ دراصل اینکر پرسن وہ لنگر ہے جس سے پورا چینل بندھا ریٹنگ کے پانیوں پر ڈول رہا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ لنگر، جب کہیں اور لنگر بٹتے دیکھتا ہے تو رسی تُڑا کراو رے دَھن تو نے پُکارا تو لہو کھول اُٹھا، ترے بیٹے ترے جاں باز چلے آتے ہیں کی صدائے لبیک کہتا بھاگ لیتا ہے۔
پڑھیے: میڈیا، ریاست، اخلاقیات اور مفادات
اگرچہ لنگر کا کام کشتی کو تھامے رکھنا ہے، لیکن یہ لنگر چینل کی نیّا کو کہیں بھی لے جاسکتا ہے۔
دوسرا سبب شاید یہ ہے کہ اینکر چینل کے لیے ریٹنگ کا لنگر لوٹتا ہے۔ اب لنگر لوٹنے کے لیے دھینگا مشتی، آپا دھاپی، سر پھٹول اور گالم گلوچ کے بعد کہیں جاکے بریانی کی تھیلی ہاتھ آتی ہے۔ سو یہی سب کرکے ریٹنگ لوٹی جاتی رہی ہے۔
چلیے اینکر کی وجہ تسمیہ تو طے پائی۔ اب جہاں تک اُس کی ذمے داریوں، دائرہ کار اور صلاحیتوں کا تعلق ہے تو بعض اینکر اپنی ذمے داریوں اور دائرہ کار سے مطمئن نہیں، وہ منصف، محتسب اور منتخب افراد کے فرائض بھی خود ہی انجام دینا چاہتے ہیں، خاص طور پر منتخب نمائندوں کو تو انجام تک پہنچانا اپنی اولین ذمے داری سمجھتے ہیں۔ یہ بیک وقت تجزیہ کار بھی ہوتے ہیں، خبرنگار بھی، مصلح بھی، نجومی بھی اور کبھی کبھی تو مفتی، مذہبی پیشوا اور روحانی شخصیت بھی۔
اِن کی تجزیہ کاری کسی جرگے میں ہونے والے کاروکاری کے فیصلے کی طرح ہوتی ہے۔ اب اینکر کا مطلب کشتی کو روکنے والا آلہ ہے، تو یقیناً بس اُسی مناسبت سے اُن کے تجزیے کو کچھ لوگ ’آلہ کاری‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں یہ بہت حساس بلکہ اپنی حساسیت میں پورے کا پورا ’حساس ادارہ‘ ہوتے ہیں۔ چناں چہ چاہے اُن کی ڈاکٹریٹ کی سند جعلی ہو، لیکن حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ اُن ہی کے دست خطوں سے جاری ہوتا ہے۔ اگرچہ اخبارات سے چینلوں، سوشل میڈیا اور ویب سائٹس تک خبروں کا سیلاب ہر روز آتا ہے، لیکن اُنہیں پھر بھی لگتا ہے کہ ناظرین بے خبر ہیں، جس کا ازالہ یہ خبریں دے کر کرتے ہیں۔ اِس مقصد کی لگن میں تحقیق کام نہ آئے تو تخلیق سے کام چلاتے ہیں۔
پڑھیے: پاکستانی میڈیا سے متعلق عوامی خدشات
انہوں نے لوگوں کی اصلاح کا بیڑا بھی اُٹھا رکھا ہے، سو قیامت کی نشانیاں بتاکر لوگوں کے اخلاق سُدھارنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ستارہ شناس تو یہ اُس پائے کے ہیں کہ ستاروں کی رفتار دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، بس ’چار ستاروں‘ کی چال دیکھ کر پیش گوئی کر ڈالتے ہیں۔ لیکن اُن کی پیش گوئیوں کا حال دیکھ کر لگتا ہے کہ ستارے اُن کے ساتھ بھی چال چل گئے۔
یہ جتنے پکے پاکستانی ہیں اتنے ہی راسخ العقیدہ مسلمان بھی۔ مذہب پر ذرا بھی آنچ آنا اِنہیں گوارا نہیں، جہاں یہ آنچ دیکھتے ہیں آگ لگادیتے ہیں۔ اتنے مذہبی ہیں کہ تفریح کرنا ہو تو بھی کوئی غیر شرعی کھیل کھیلنے کے بہ جائے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں۔
چاہتے ہیں کہ عوام کو سیاست، معیشت اور معاشرت کی بابت راہ نمائی کی طرح مذہبی معاملات کے لیے بھی کسی اور طرف نہ دیکھنا پڑے، اِس لیے ’ون ونڈو‘ کی سہولت فراہم کرتے ہوئے مفتی اور مذہبی پیشوا کا روپ دھار کر بے دھڑک فتوے بھی جاری کردیتے ہیں۔
فیض صاحب نے غالباً ہمارے اینکرز ہی کے لیے کہا تھا ’بول کے لب آزاد ہیں تیرے‘، اور نہ بھی کہا ہو تو اِس پیغام کو اِن اینکرز ہی نے سمجھا تو ہکلائیں، جھنجھلائیں، جھلائیں چیخیں چلائیں، ڈرائیں، دھمکائیں یا من پسند گالیاں آزمائیں، اُنہیں بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا، کیوں کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ آواز ’صدائے غیبی‘ سمجھی جاتی ہے اور ہر کوئی سمجھ لیتا ہے کہ ’تھا جو پردے میں چُھپا بول اُٹھا آپ کے آپ۔‘
پڑھیے: آئٹم گرلز بریکنگ نیوز
یہاں ہم یہ انتباہ کردیں کہ فیض صاحب کی ہدایت پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے سودمند نہیں، بلکہ یہ اُلٹا شدید نقصان کا سبب بن سکتا ہے، یہ حکم صرف ’فیض یاب‘ افراد کو فیضان پہنچاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ ہمہ جہت، مجموعہ الصفات اور صاحبِ کمال اینکر آتے کہاں سے ہیں؟ تو میاں یہ آتے واتے نہیں، اِن کا ظہور ہوتا ہے، نزول ہوتا ہے اور یہ نمودار ہوتے ہیں۔ اِن میں سے بیشتر کا دامن صحافت کی آلودگی سے پاک ہوتا ہے۔ سو یہ صفائی پسند میڈیا مالکان کو بھا جاتے ہیں۔ یہ سیاست، تجارت، وزارت اور شوبز تیاگ کر اچانک خود کو سچ کی ترویج کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ چینل اِنہیں اظہارِ حق کا جو معاوضہ دیتے ہیں وہ سن کر ہم جیسوں کا چہرہ فق ہوجاتا ہے، لیکن دل خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے کہ انسانیت، کم از کم پاکستان کی حد تک، اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سچائی کے لیے زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے نہ سولی پر جھولنا مقدر بنتا ہے، ہمارے تنخواہ دار سچے منصور اور سقراط اپنی صداقت کی قیمت چکا نہیں رہے پا رہے ہیں، وہ بھی دولت اور شہرت دونوں صورتوں میں۔
تبصرے (4) بند ہیں