نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ترمیمی بل منظور نہ ہوسکا
اسلام آباد: حالیہ مردم شماری کی روشنی میں صوبوں میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی نئی حلقہ بندیوں کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ترمیمی بل اپوزیشن کی مخالفت کے باعث منظور نہیں ہو سکا۔
واضح رہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت '342 میں سے 228' ارکان اسمبلی کا متفق ہونا ضروری ہے۔
بل پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے تھے کہ پہلے سے تاخیر شدہ بل میں کچھ رکاوٹیں حائل ہوسکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیوں سے متعلق بل کے مسودے کی منظوری
اس کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے بل پیش کیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نے ہمیں یہ تاثر دیا تھا کہ بل کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیا جائے گا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بل کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
نوید قمر نے بل پیش کرنے کے طریقے کو غیر آئینی قرار دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پی پی پی نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت دو روزہ اجلاس میں بل پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا بلکہ بل کو کثرت رائے سے منظور کرانے کی حمایت کی تھی۔
ساتھ ہی ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نے بل پیش کرنے سے قبل صوبہ سندھ کے تحفظات دور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا، انہوں نے کہا کہ ہمیں مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیاں آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ ووٹروں کی تعداد کے حساب سے ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں پنجاب کی نشستیں کم کرنے کی تجویز
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اگر یہ طریقہ کار اپنایا جائے تو کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے پہلے ہی مردم شماری کے معاملے پر تحریک کا آغاز کیا ہوا ہے۔
ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے سے انتخابات کے ملتوی ہونے کی سب کو فکر ہے لیکن مردم شماری کے لیے نو سال سے کسی نے پارلیمان میں بات تک نہیں کی، ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ بل میں ترمیم کی جائے۔
دونوں اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے نقطہ اعتراض اٹھانے پر وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ نوید قمر نے پارلیمانی رہنماؤں کے دو اجلاسوں میں مشترکہ مفادات کونسل کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا، اس وقت یہ اعتراض اٹھانا بے بنیاد ہے۔
اس موقع پر پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں اس معاملے پر سب نے اتفاق کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو پارٹی کی قیادت کے حوالے سے معاملہ خراب کرنے کا کہا گیا ہے تو وہ اپنی غلطی تسلیم کرے اور معافی مانگے۔
محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کچھ تحفظات کا اظہار پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں کیا تھا لیکن سب جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ آئین میں ترمیم کی جائے گی اور اس بات کا اعلان صحافیوں کے سامنے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن رہنماؤں کو ماننا چاہیے کہ وہ اجلاس میں موجود تھے اور انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا لیکن اب انہیں کہیں سے ہدایت ملیں ہیں جس پر وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے۔
مزید پڑھیں: 2018 انتخابات کا وقت پر انعقاد انتخابی اصلاحات بل میں ترمیم سے مشروط
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ان کی جماعت بل کی حمایت کرتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی آئندہ عام انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتی، انہوں نے حکومت سے کہا کہ دیگر جماعتوں کے تحفظات دور کیے جائیں۔
اس موقع پر مظفر گڑھ سے منتخب ہونے والے آزاد رکن اسمبلی جمشید دستی نے ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی سے استدعا کی کہ اجلاس کو جمعہ تک ملتوی کیا جائے۔
اپوزیشن کا احتجاج
بل پیش کرنے سے قبل اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
اس موقع پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت ٹیکسوں کے حصول میں ناکام ہو گئی ہے جس کی وجہ سے وہ براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے پیسے جمع کرنا چاہتی ہے۔
پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی، ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور جماعت اسلامی کے طارق اللہ نے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے فیصلے پر حکومت پر کڑی تنقید کی۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔
یہ رپورٹ 3 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی