• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

شائع November 2, 2017 اپ ڈیٹ November 3, 2017
گزشتہ 11 برسوں میں پوری دنیا میں 900 سے زیادہ صحافی حضرات کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیا جاچکا ہے—پوسٹر رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز
گزشتہ 11 برسوں میں پوری دنیا میں 900 سے زیادہ صحافی حضرات کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیا جاچکا ہے—پوسٹر رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز

یہ اُن دونوں کا آخری انٹرویو ثابت ہوا۔ Claude Verlon اور Ghislaine Dupont فرنچ صحافی تھے۔ یہ دونوں مالی میں کڈال کے شمالی ٹاؤن میں ایک مقامی سیاسی لیڈر کے گھر سے انٹرویو کرکے نکلے۔ اُنہیں راستے سے اغواء کیا گیا اور بعد میں قتل کرکے اُن کی لاشیں کڈال سے 10 کلو میٹر دور صحرا کے راستے سے ملیں۔

یہ دو نومبر کا دن تھا۔ صحافیوں کے قتل کا یہ واقع عین اُس وقت پیش آیا جب فرانس نائجریا سے 4 مغوی لوگوں کی رہائی کی خوشی منا رہا تھا۔ صحافیوں کے قتل کی خبر فرانس میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

پوری دنیا میں صحافی برادری نے اِس پر احتجاج کیا۔ معاملہ اقوام متحدہ پہنچا اور تمام ممبرز ممالک نے 2 نومبر کو International Day to End Impunity for Crimes against Journalists کے نام سے منسوب کیا اور صحافیوں کے حقوق کو اہمیت دینے کے حوالے سے قانون سازی پر بھی زور دیا۔

اظہارِ رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب جب اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگی ہے تب تب باقی بنیادی انسانی حقوق بھی تیزی سے پامال ہوئے ہیں۔ جن معاشروں نے اظہارِ رائے جیسے بنیادی انسانی حقوق کو اہمیت دی ہے وہاں سربراہِ مملکت بھی ایک عام آدمی کو جواب دہ ہوتا ہے اور جن معاشروں نے اظہارِ رائے جیسے بنیادی اصولوں کو صلب کیا ہے اُن معاشروں کی عوام نہ صرف مظطرب ہے بلکہ احساسِ کمتری کا شکار بھی ہے۔

آج کی دنیا میں اظہارِ رائے کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز صحافی ہیں، لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ جن ممالک میں اظہارِ رائے پر کوئی پابندی نہیں ہے وہاں بھی اِن بنیادی حقوق کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جارہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گزشتہ 11 برسوں میں پوری دنیا میں 900 سے زیادہ صحافی حضرات کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیا جاچکا ہے۔

یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں کیونکہ قتل کیے جانے والے صحافیوں میں سے 95 فیصد صحافی کسی جنگ یا طوفان کے دوران رپورٹنگ نہیں کر رہے تھے بلکہ اُن کی موت لوکل خبروں کی رپورٹنگ کے دوران ہوئی ہے۔ اِس سے بھی افسوسناک اور پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اب تک اِن قتل ہونے والے صحافیوں میں سے صرف 10 فیصد کیسز حل ہوئے ہیں یعنی 10 میں سے صرف 1 کے قاتل کو سزا مل سکی ہے۔

یہ ناکامی درحقیقت آزادی رائے کے دشمنوں کو پیغام دے رہی ہے کہ آپ صحافیوں کے ساتھ کچھ بھی سلوک کرلیں آپ کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیا جاسکے گا۔ یہ پیغام آزادی رائے کی علم بردار عالمی قوتوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔

آئیے اب ایک نظر پاکستان میں صحافیوں کو درپیش مشکلات پر ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں 2001 سے لے کر 2016 تک 100 سے زیادہ صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے جبکہ زخمی، اغواء، گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے صحافیوں کی تعداد 2 ہزار سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے لیے یہ اعداد و شمار انتہائی تشویشناک ہیں کیونکہ تقریباً 20 کروڑ کی آبادی میں صحافیوں کی تعداد 18 سے 20 ہزار ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ ذاتوں، مسالک اور مذاہب کی بنیاد پر تقسیم ہیں وہاں ہر ذات کے لوگوں کی آزادانہ اظہارِ رائے معتدل معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے لیکن یہ کام اُس وقت تک ممکن ہو ہی نہیں سکتا جب تک صحافیوں کی حفاظت کو یقینی نہ بنایا جائے۔

اقوام متحدہ کے plan of action on impunity against journalists کے لیے پاکستان کو 5 پائلٹ ملکوں میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ پاکستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں 2009 سے 2014 تک تقریباً 70 صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے، اگر اِس کی اوسط نکالی جائے تو یہ ہر ماہ میں ایک صحافی کا قتل بنتا ہے۔ یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے قتل میں سب سے زیادہ ہے اور شاید یہاں ایسا اِسی لیے ہورہا ہے کیونکہ قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے نہ تو کوئی سنجیدگی دکھائی جاتی ہے اور نہ ہی اِس حوالے سے مناسب قانون سازی کی جارہی ہے، جبکہ صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیمیں بھی بتدریج اپنی طاقت اور افادیت کھوتی جارہی ہے، جو ہر ایک صحافی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

صحافیوں کے قتل کے علاوہ پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں میں میڈیا ہاوسز، اُن کی گاڑیوں اور ورکرز پر کیے گئے حملے بھی قابل مذمت ہیں۔ 2013 میں ایکسپریس نیوز کی عمارت پر دو مرتبہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 7 لوگ زخمی ہوئے۔ 2014 میں ایکسپریس نیوز کی ہی DSNG وین پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 3 لوگ مارے گئے اور میڈیا ہاوس کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ 2015 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر 10 میں سماء ٹی وی کی DSNG وین پر حملہ کیا گیا۔

اِس کے علاوہ جیو نیوز کی DSNG وین پر بھی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 1 شخص جاں بحق اور 1 زخمی ہوا۔ 2014 میں اسلام آباد میں مشتعل ہجوم نے پی ٹی وی کی بلڈنگ پر حملہ کرکے وہاں موجود سامان کو نہ صرف نقصان پہنچایا بلکہ چینل کی نشریات بھی بند کردیں۔ اِس کے علاوہ دن میڈیا گروپ کے لاہور آفس پر نامعلوم افراد نے کریکر بم سے حملہ کیا۔

2015 میں کراچی کے علاقے عیسیٰ نگری میں ڈان نیوز کی DSNG وین پر حملہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ایک شخص زخمی ہوا۔

2014 میں اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے کے دوران متعدد مرتبہ جیو نیوز کی بلڈنگ پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں عمارت کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔

اِن حقائق کے پیشِ نظر پوری دنیا بالخصوص پاکستان کو صحافیوں کی حفاظت کے لیے مثبت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ میری پاکستان کے میڈیا ہاوسز اور حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اُٹھائیں اور پوری دنیا کو ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرکے دیں جو صحافیوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے مثال بن جائے۔

اِس حوالے سے میں چند تجاویز آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

  • صحافیوں کی حفاظت کی سب سے زیادہ زمہ داری میڈیا ہاؤسز پر عائد ہوتی ہے۔ میڈیا ہاوسز کو اپنے اختلافات بھلا کر ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا جس کے تحت کسی بھی صحافی کو تب تک کسی ایونٹ پر نہ بھیجا جائے جب تک میڈیا ہاؤس کو یقین نہ ہوجائے کہ وہ مشکل حالات سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور جس کام کے لیے اُسے بھیجا جا رہا ہے وہ اِس کی مکمل اہلیت بھی رکھتا ہے۔

  • میڈیا ہاوسز صحافیوں کی ٹریننگ اور حفاظتی طریقہ کار کو نافذ کرنے کے لیے خصوصی بجٹ کا انتظام کرے کیونکہ میڈیا ہاوسز کو اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ بجٹ کی کمی کسی بھی صحافی کی زندگی کو داو پر لگانے کا بہانہ نہیں ہوسکتی۔

  • صحافی کی موت کے بعد اُس کے خاندان کی مکمل ذمہ داری اُٹھانے کے لیے پالیسی کو عملی شکل دی جائے۔ تمام صحافیوں کے لیے جنرل سیفٹی ٹریننگ لازمی قرار دی جائے۔ جنرل سیفٹی کے علاوہ ڈیجیٹل سیفٹی، ایموشنل سیفٹی، انوائرمنٹل سیفٹی اور مخصوص حالات میں اسپیشل سیفٹی پروسیجرز کی ٹریننگ پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

  • جرنلسٹس کو ہر نئے آنے والے قانون سے متعلق مکمل آگاہی دی جائے۔ خواتین صحافیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی قوانین سے متعلق آگہی دی جائے۔

  • میڈیا ہاوسز کو چاہیے کہ وہ عوام کی نظر میں صحافیوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی پروگرامات ترتیب دیں تاکہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں عوام صحافیوں کے شانہ نشانہ کھڑے ہوں اور جہاں تک ممکن ہو اُن کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرسکیں کیونکہ اکثر اوقات عوامی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے بھی صحافیوں کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اِس کے لیے صحافیوں کو اپنی ساکھ پر کسی بھی طرح کا سمجھوتا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔

تمام میڈیا ہاوسز کو ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا کر چلنا ہوگا۔ اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اِس بات پر یکسو ہونا پڑے گا کہ ایک صحافی پر حملہ صحافت اور پوری صحافتی برادری پر حملہ ہے اور صحافت پر حملہ اظہارِ رائے اور عام لوگوں تک معلومات کی رسائی ہر حملہ ہے۔ یہاں اِس بات کا ذکر ضرور سمجھتا ہوں کہ میڈیا ہاؤسز کے یہ تمام کام کرنے کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ریاست اِن ذمہ داریوں سے آزاد ہوگئی ہے۔

ریاست اور ریاستوں اداروں کی یہ اولین کوشش ہونی چاہیے کہ پاکستان میں صحافیوں اور صحافت پر کوئی حملہ ہونا چاہیے نہیں چاہیے، لیکن اگر ہوجائے تو پھر حملے کے پیچھے چُھپے لوگوں کو پکڑنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے اور اُس وقت تک یہ کیس ختم نہیں ہونا چاہیے جب تک اصل مجرم کو اُس کے کیے کی سزا نہ مل جائے۔

اِسی طرح ریاست کے ہر شخص کو اپنی رائے کا اظہار کرنے، سرکاری انفارمیشن تک رسائی حاصل کرنے، حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے اور ریاست کے قانون سے اختلاف کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور اگر کوئی سرکاری اہلکار عوام کے اِس حق میں رکاوٹ ڈالنے کا مرتکب ہوتا ہے تو اُسے قانون کے مطابق سزا دی جائے اور کسی بھی صورت اُس کے ساتھ رعایت نہیں برتی جانی چاہیے کیونکہ خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں عام انسان کے حقوق حاکمِ وقت کے حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور وقت گواہ ہے کہ جن ریاستوں میں حکمرانوں نے اپنی خواہشات پر عوامی حقوق کو ترجیح دی ہے وہاں صحافت بھی محفوظ ہے اور صحافی بھی۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

مظہر حسین بودلہ Nov 02, 2017 10:25am
پاکستا ن میں آج بھی خواب دیکھنے پر پابندی نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024