2018 انتخابات کا وقت پر انعقاد انتخابی اصلاحات بل میں ترمیم سے مشروط
اسلام آباد : الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ اگر انتخابی اصلاحات بل میں ترمیم 10 نومبر تک کرلی گئی تو ہی آئندہ انتخابات کا وقت پر انعقاد ممکن ہے.
گذشتہ روز ایک میڈیا ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں، اسی لیے اگلے انتخابات 2017 کے مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے مکمل نتائج کا نوٹیفکیشن اپریل 2018میں جاری ہوگا جس کے بعد ہی موجودہ قانون میں ترمیم کی جاسکتی ہے، جس کی وجہ سے آئندہ انتخابات جولائی اور اگست تک ملتوی ہوسکتے ہیں.
مزید پڑھیں: انتخابات 2018 : الیکشن کمیشن کی تیاریاں تیز
سیکریٹری الیکشن آف کمیشن کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمان سے وقت پر الیکشن ایکٹ میں ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو آئندہ عام انتخابات وقت پر منعقد ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان( ای سی پی) نے حکومت کو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تھی جو 3 نومبر کو مکمل ہورہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے کہا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں، نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات ممکن نہیں۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی عام انتخابات میں تاخیر پر قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018: الیکشن کمیشن، عمران خان آمنے سامنے
ایک سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد 2ماہ کے اندر عام انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔
واضح رہے کہ موجودہ اسمبلی کی پانچ سالہ مدت 5 جون 2018 کو مکمل ہورہی ہے اور آئندہ انتخابات 5اگست سے پہلے منعقد ہونے چاہیے۔
ووٹر فہرستوں کے حوالے سے سیکریٹری ای سی پی نے کہا کہ ووٹر فہرستوں میں اپ ڈیٹنگ کا مرحلہ رواں ماہ سے شروع ہو جائے گا جبکہ نئے ووٹر کے اندراج کے لیے اگلے ماہ سے گھر گھر جا کر تصدیقی مہم کا آغاز کیا جائے گی جبکہ اگلے سال جنوری میں ڈسپلے سینٹر میں فہرستیں آویزاں کردی جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ نئی ووٹر فہرست مارچ اور اپریل میں شائع کردی جائے گی، الیکشن کمیشن نے امید ظاہر کی کہ پورے ملک میں ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
یعقوب بابر نے بتایا کہ بائیو میٹرک مشینوں کو بھی آئندہ انتخابات میں استعمال کیا جائے گا لیکن صرف بائیو میٹرک مشینوں پرمکمل انحصار نہیں کرسکتے۔
یہ خبر یکم نومبر 2017کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی