کیا کمیٹی ڈالنے سے واقعی پیسوں کی بچت ہوتی ہے؟
بیگم سلیم کے گھر پر آج بہت ہی رونق لگی ہوئی ہے۔ محلے بھر کی خواتین اور رشتہ دار جمع ہیں، لیکن حیرانی کی بات یہ کہ نہ تو آج کسی کی شادی ہے اور نہ خوشی یا غم کا کوئی اہم موقع اور نہ ہی کوئی تہوار مگر اتنی تعداد میں خواتین جمع کیوں ہیں؟
آج بیگم سلیم کمیٹی ڈال رہی ہیں اور ہر خاتون اِس کمیٹی میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے اور اِس عمل میں شرکت کرنے آئی ہے۔ اب آپ پوچھیں گے یہ کمیٹی ہے کیا؟
برِصغیر کے معاشرے میں لوگ نہایت قریبی معاشرتی تعلقات کے ساتھ رہتے ہیں، خوشی غمی تہوار سب مل کر مناتے ہیں اور یہی حال باہمی معیشت کا بھی ہے۔ کمیٹی جسے (BC) بھی کہا جاتا ہے یعنی Beneficiary Committe۔ یہ مستقبل کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک سماجی طریقہ کار ہے، جس میں اِرد گرد کی خواتین جمع ہوکر ماہانہ بچت کے حساب سے ایک مقررہ رقم طے کرتی ہیں جو کہ اُنہیں ہر مہینے کسی ایک خاتون کے پاس جمع کروانی ہوتی ہے۔
بیگم سلیم نہ صرف کمیٹی ڈالتی ہیں بلکہ وہ ہر ماہ کمیٹی جمع کرنے اور اِس کے لینے والے تک پہنچانے کی پابند ہیں۔ ہر ماہ کھلنے والی کمیٹی کی جمع شدہ رقم کو اُس خاتون تک پہنچایا جاتا ہے جس کی کمیٹی کھلتی ہے تاکہ جن مقاصد کے حصول کے لیے کمیٹی بھری گئی تھی وہ پوری کی جاسکے۔ یہ ہے پاکستان اور برصغیر میں بچت کرنے کا وہ طریقہ جو یہاں عام طور پر رائج ہے۔ یہ نظام اِس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے پُرکشش اسکیمیں ہونے کے باوجود کمیٹی کا مدِمقابل کوئی نظام بھی وضع کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
کمیٹی کا نظام نہایت ہی ڈھیلا ڈھالا سا ہوتا ہے۔ کس مہینے کس خاتون کو کمیٹی دینی ہے، یہ طے کرنے کے لیے باہمی رضامندی پیدا کی جاتی ہے یا پرچیاں ڈال کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اِس میں بھی اگر کسی خاتون کو درکار مہینے پر کمیٹی نہ مل رہی ہو تو وہ متعلقہ خاتون سے نمبر تبدیل کروالیتی ہے۔ اگر کسی خاتون کی ماہانہ بچت کمیٹی کی ماہانہ طے کردہ رقم سے کم ہو تو دو یا تین یا چار خواتین مل کر بھی کمیٹی میں شامل ہوسکتی ہیں۔
کمیٹی کا یہ نظام نہ صرف گھریلو خواتین میں مشہور ہے بلکہ کاروباری حضرات میں بھی کمیٹی کے ذریعے رقوم جمع کرنے کا رُجحان پایا جاتا ہے۔ کراچی کی جوڑیا مارکیٹ میں محمد رمضان بھائی (نام تبدیل کیا گیا ہے) کمیٹی ڈالتے ہیں۔ اُن کی کمیٹی میں ماہانہ زر کی مالیت کم از کم ایک لاکھ روپے ہے اور ماہانہ کئی لاکھ روپے تک کمیٹی جاتی ہے۔
رمضان بھائی کے پاس کمیٹی ڈالنے کے لیے کئی طریقے کار موجود ہیں۔ بعض تاجر یومیہ، بعض ہفتہ وار اور بعض ماہانہ بنیادوں پر کمیٹی جمع کرواتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے رمضان بھائی نے باقاعدہ اسٹاف بھرتی کیا ہوا ہے جو کہ تمام حسابات رکھتا ہے۔ کمیٹی کی خدمات فراہمی کے عوض رمضان بھائی معمولی سی فیس بھی چارج کرتے ہیں اور اِس کمیٹی کے پیسے کو مارکیٹ میں گھما پھیرا کر کچھ نہ کچھ مزید بھی کمالیتے ہیں۔
کس تاجر کو اُس کی کمیٹی کس مہینے ملے گی، اِس بات کا تعین پرچیاں ڈال کر کیا جاتا ہے۔ اگر کسی تاجر کو فوری رقم درکار ہو اور اُس کی کمیٹی فوری نہ کھلے تو وہ بولی لگا کر اپنے نمبر کی کمیٹی خرید لیتا ہے۔ اِس طرح معمولی کمی ہی سہی مگر وقت پر رقم کا بندوبست تو ہو ہی جاتا ہے۔
کمیٹی کا نظام بیگم سلیم کا ہو یا بھائی رمضان کا دونوں میں ایسے افراد کو شامل کیا جاتا ہے جن پر سب کو مکمل بھروسہ ہو اور لین دین میں کھرے ہوں۔ چنانچہ یہ عمل زیادہ تر ایک ہی کمیونٹی میں قائم رہتا ہے۔ کمیٹی کے ممبران بڑھانے کی کوشش یا لالچ میں نہیں پڑا جاتا ہے۔
کمیٹی جیسی بچت میں دو طرح کے نقصانات ہیں
ایک تو یہ بچت کسی حکومتی یا مالیاتی نظام کا حصہ ہونے کے بجائے ایک علیحدہ معاشی نظام کے طور پر کام کرتا ہے۔
کمیٹی میں اصل زر ہی واپس ملتا ہے۔
جس میں سے اگر افراط زر کو منہا کردیا جائے تو اصل رقم کی قُوت خرید منفی ہوجاتی ہے۔
بینکاروں اور معاشی ماہرین کے مطابق کمیٹی کے اِس نظام میں سب سے بڑی خرابی ہے کہ پاکستان میں لوگ بچت کرنے کے باوجود بھی بچت کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں کیونکہ یہ بچت قائم مالیاتی نظام کو بائی پاس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ذریعے بچت کی شرح صرف 14 فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح 28 فیصد سے زائد ہے۔
چین اپنی بچت کے لحاظ سے دنیا میں مُمتاز حیثیت رکھتا ہے۔ چینی عوام نے اپنی بچتوں کو بینکوں اور مالیاتی اداروں میں سرمایہ کاری کی اِس سرمائے کو چین کے بڑے بڑے صنعتی یونٹس اور انفرااسٹرکچر منصوبے بنانے میں استعمال کیا گیا اور اِس طرح چین ایک بڑی طاقت بننے میں کامیاب ہوا۔ جس ملک میں بچت مالیاتی نظام کے ذریعے کی جائے گی وہاں کی معیشت کو ترقی کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل دستیاب ہوں گے۔
مُلکی بچت کے فوائد سے متعلق آگاہی کے لیے عالمی سطح پر 31 اکتوبر کو عالمی یومِ بچت یا ورلڈ سوینگ ڈے منایا جاتا ہے۔ اِس دن کا مقصد عوام میں انفرادی سطح پر بچت کرنا اور اِس بچت کو منافع بخش اسکیموں میں لگانا شامل ہے۔ اِس حوالے سے ایک تنظیم ڈیلیو ایس بی آئی کے نام سے کام کر رہی ہے۔ یہ تنظیم بچتوں کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کے علاوہ پالیسی فریم ورک اور دیگر امور پر بھی کام کرتی ہے۔
پاکستان میں عوامی سطح پر بچت کے اِسی انداز کی وجہ سے عوام اپنی بچتوں کو مالیاتی نظام میں لگانے کا رُجحان بہت کم ہے اور اِسی بات کی عکاسی برطانوی بینک اسٹینڈرڈ چارٹر کی رپورٹ میں بھی ہوئی جس میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز (Emerging Affluent) ایسے افراد سے بچتوں کے بارے میں رائے لی گئی جو کہ ماہانہ اخراجات کے علاوہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ بچت کرسکتے تھے۔
سروے کے نتائج میں اِس بات کا انکشاف ہوا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی بچت کرنے کے معاملے میں فرسودہ خیالات کے حامل ہیں اور بچت کو گھروں میں رکھنے یا اثاثوں (سونا، پلاٹ یا دیگر اثاثے) میں تبدیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر یہ بھی اپنی بچت کو کمیٹی میں شامل کرلیتے ہیں۔
ترقی پذیر ملکوں میں عوامی بچت کے حوالے سے اسٹینڈرڈ چارٹر بینک کے سروے میں پاکستان کے علاوہ چین، بھارت، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان، سنگاپور، کینیا کے ایمرجینگ ایفولینٹس کو شامل کیا گیا ہے اور اِس سروے میں ہر ملک کے ایک ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ دیگر قوموں کے مقابلے میں پاکستانی زیادہ شاہ خرچ ثابت ہوئے ہیں۔ 28 فیصد پاکستانی اپنی رقوم کو فوری خرچ کرتے ہیں جبکہ چین میں یہ شرح 22 فیصد اور بھارت میں 20 فیصد ہے۔
پاکستانیوں کے لیے بچت کی سب سے بڑی وجہ اور ترجیح اُن کے بچے ثابت ہوئے ہیں۔ سروے کے مطابق 29 فیصد پاکستانی بچوں کی تعلیم، 9 فیصد اُن کی شادی کے لیے بچت کرتے ہیں جبکہ 11 فیصد ناگہانی آفات اور بیماری اور مشکل وقت کے لیے پس انداز کرتے ہیں۔
پاکستان میں 38 فیصد پڑھے لکھے اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لوگ بچت کھاتوں میں رقوم رکھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ 3 فیصد ٹائم ڈیپازٹس، 4 فیصد میوچل فنڈز جبکہ 50 فیصد اپنے گھروں میں نقد رکھتے ہیں۔ 8 فیصد جائیداد میں اپنی بچت لگاتے ہیں، فکسڈ انکم سکیورٹیز میں ایک فی صد جبکہ کمپنی پنشن فنڈ اور ریگولیر ڈیپازٹ سیونگ پلان میں رقوم رکھنے والوں کی شرح صفر فی صد نکلی ہے۔
اِس سروے میں بتائے گئے اعداد و شمار کی گواہی خود پاکستانی اداروں کے اعداد و شمار بھی دیتے ہیں۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں حصص کا لین دین کرنے کے لیے 2 لاکھ 82 ہزار سی ڈی سی کے سب اکاوئنٹس کھولے گئے ہیں مگر انفرادی سرمایہ کاروں کی تعداد 51 ہزار ہے۔ میوچل فنڈ انڈسٹری کی حالت اِس سے بھی مخدوش ہے، 292 میوچل اور پنشن فنڈز میں سرمایہ کاری کا حجم 764 ارب روپے ہے۔
عوام میں سرمایہ کاری میں سود کا عنصر بھی مالیاتی اداروں میں رقوم رکھوانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ پاکستانی بینکوں میں موجود 11 ہزار ارب روپے سے زائد کی رقوم میں صرف 4 ہزار ارب روپے بچت کھاتوں میں رکھے گئے ہیں، جس میں طویل مدت کے لیے ٹرم ڈیپازٹ میں 2 ہزار ارب روپے رکھے گئے۔ اِس کی وجہ بینکوں کی جانب سے مناسب منافع نہ دینے کے علاوہ بینکوں کی جانب سے بچت کھاتوں کی حوصلہ شکنی ہے اور اِس عمل سے بچتوں کو مزید نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر پاکستانی گھر تک محدود یا روایتی بچت کرنے کے بجائے مالیاتی نظام میں بچتوں کو لگائیں تو اصل زر کے علاوہ بہترین منافع بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر کم رسک والی اسکیموں میں رقوم رکھوائی جائیں تو پرنسپل رقم کے علاوہ آئندہ دس سال میں منافع 48 فیصد تک ہوسکتا ہے اگر زیادہ رسک والے سیکٹرز میں رقوم رکھی جائیں تو منافع 86 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
مذکورہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں بینکاری اور دیگر مالیاتی ادارے عوام میں وہ اعتماد قائم نہیں کرسکے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی بچت کی سرمایہ کاری کرسکیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں کمیٹی نظام پوری طرح سے بینکاری نظام سے باہر ہے۔
مالیاتی اداروں کو اِس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ وہ کون سی مصنوعات متعارف کرائیں کہ جس کے ذریعے وہ مُحلے کی سطح پر ڈالی جانے والی کمیٹی کے بجائے اُن کی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوں۔
اِس حوالے سے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو اپنے کاروباری نیٹ ورک کو ملک کے پسماندہ اور دیہی علاقوں تک توسیع دینے کے علاوہ اپنی مارکٹنگ میں موجود خامیوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آخر کیوں وہ تعلیم یافتہ افراد کو بچتوں کی جانب راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں اور آخر کب وہ عوام کی روایتی بچت کے طریقے کے مقابلے میں خود کو مضبوطی سے کھڑا کر پائیں گے۔
تبصرے (11) بند ہیں