پاک ترک اسکولوں کے اساتذہ کی ملک بدری: سینیٹ نے جواب طلب کرلیا
سینیٹ کے چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما میاں رضا ربانی نے ملک میں پاک ترک اسکول سسٹم میں اپنے فرائض انجام دینے والے اساتذہ اور ان کے اہلخانہ کی ملک بدری پر حکومت سے جواب طلب کرلیا۔
سینیٹ میں اجلاس کے دوران ایک سینیٹر کے بیان پر چیئرمین سینیٹ نے وزیر داخلہ سے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ اور اہلخانہ کی ملک بدری کے حوالے سے پالیسی بیان بھی طلب کرلیا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ترک شہریوں کی ملک بدری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’300 کے لگ بھگ ترک شہریوں کو ظالمانہ حراست کے بعد ان کے اہلخانہ سمیت بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک بدر کیا گیا، جن پر پاکستان نے دستخط کیے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاپتہ ترک خاندان ملک بدر کردیا گیا
انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان اور پاک ترک دوستی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سے دوستی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے دوسرے ممالک کے داخلی معمالات میں دخل اندازی کرکے بھاری نقصان اٹھایا ہے‘.
انھوں نے سینیٹ کو یاد دلایا کہ پاک ترک اسکول کے سابق نائب صدر کو پچھلے مہینے لاہور میں اہلخانہ کے ہمراہ اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں ملک بدر کردیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے قبل امریکا کے دورے کے دوران وزیر خارجہ خواجہ آصف نے یقین دہانی کرائی تھی کہ جن ترک اساتذہ کے پاس عدالتوں کے حکم امتناع اور اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے پناہ گزینوں کے دستاویزات موجود ہوں گے انہیں ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس کے دوران کہا کہ یہ صورتحال پچھلے کچھ مہینوں سے مزید خراب ہوتی جارہی ہے کیوں کہ کچھ ترک خاندان کے گھر بچوں کی پیدائش بھی ہوئی ہے اور ان کے پاس پاس پورٹ بھی نہیں جبکہ کچھ ترک شہریوں کے پاسپورٹ کی میعاد بھی ختم ہوچکی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے انسانی حقاق کے کئی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں جبکہ ترک شہریوں کو ملک بدری کرکے ان تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی لہٰذا حکومت کو ان تمام فیصلوں کو واپس لے لینا چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیں: ترک خاندان کے ملک بدر کرنے پر حکومت سے توہین عدالت کے نوٹس پر جواب طلب
وفاقی وزیر سیفرون ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبد القادر نے وفاقی وزیر مذہبی امور کی جانب سے سوالات کا جواب دیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے سوال کیا کہ ’متعلقہ وزیر کہاں ہیں؟ اگر کوئی وزیر اپنی وزارت سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو انہیں اپنی وزارت چھوڑ دینی چاہیے‘۔
علاوہ ازیں کشمیر پر بھارتی تسلط کے 70 برس مکمل ہونے اور بھارت کی جانب سے ریاستی دہشتگردی پر سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔
اجلاس کے دوران سینیٹرز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری پر تشدد واقعات پر بین الاقوامی کمیونٹی کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے جسے بھارت نے ہمیشہ رد کیا۔
یہ خبر 28 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی