کیا جہانگیر ترین کا کیس، پاناما کیس سے مختلف ہے؟عدالت کا سوال
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیرترین کی نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ان کے وکیل بشیر مہمند سے استفسار کیا کہ وہ پاناما اور ان کے کیس کے درمیان فرق کو واضح کریں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کی درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند سے کہا کہ وہ وضاحت کریں کہ جہانگیر ترین کے کیس اور پاناما کیس، جس کی بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا، اس میں کیا فرق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کہتے ہیں کہ عمران خان کے کیس اور پاناما کیس میں مماثلت ہے کیونکہ انھوں نے اثاثے ظاہر نہیں کیے'۔
سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے کمپنی میں ملازمت اور تنخواہ کااہل ہوناتسلیم کیا، پاناما مقدمے میں جھوٹابیان حلفی دینے پرفیصلہ ہوااور فیصلے میں کہا گیا کہ نوازشریف نے اپنی پوزیشن کوواضع نہیں کیا جبکہ یہاں پر درخواست گزار کا مقدمہ کمزوراور پانامہ کا مقدمہ مضبوط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہانگیرترین نے دستاوہزات پیش کیں اور اپنی آمدن اورذرائع بھی بتائے ہیں جبکہ پاناما مقدمے میں نوازشریف اپنی پوزیشن ثابت کرنے میں ناکام ہوئے تھے۔
جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف تین بار وزیر اعظم بن چکے تھے اور ان کے خلاف کوئی ادارہ کارروائی کے لیے تیار نہیں تھا، چیئرمین نیب نے عدالت میں کارروائی سے صاف انکار کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی تھی جبکہ جہانگیر ترین کا بینک ریکارڈ اور ٹیکس گوشوارے پیش کیے گئے ہیں اور ان کے اثاثے آمدن سے زائد نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیارقم کی منتقلی اور جائیداد کی خریداری میں بے ایمانی ہوئی کیونکہ ہمیں جہانگیر ترین کے کیس میں ایمانداری کو دیکھنا ہے۔
بشیرمہمند نے کہا کہ کسی بھی معاملے میں پرفیکشن نہ ہونے کو بددیانتی نہیں کہا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں بد دیانتی کیا ہے؟۔
جہانگیر ترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ قانون کی سنگین خلاف ورزی بد دیانتی ہوتی ہے، ٹریفک سگنل توڑنے کو بد دیانتی نہیں کہا جا سکتا۔
'زرعی اراضی پر ٹھوس ثبوت نہیں دیے'
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جہانگیرترین کی لیززمین کا کیس کمزور ہے، کیا انھوں نے زرعی آمدن پرٹیکس دیا ہے۔
سکندر بشیر مہمند نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں کہوں گا کہ لیز زمین آمدن کا مقدمہ کمزور ہے اور یہ معاملہ متعلقہ فورم پر زیر التوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زرعی آمدن پر معاملہ ٹیکس کم یا زیادہ دینے کا ہے اور اس حوالے سے عدالت کو مخلصانہ طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ زرعی اراضی کے معاملے پر ٹھوس دستاویزات نہیں دیے گئے اور سرکاری ریکارڈ سے 18 ہزار ایکڑ حاصل کرنا ثابت نہیں ہوتا۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ زرعی اراضی پر بھی آمدن اور اثاثے کا تنازع نہیں ہے۔
جہانگیر ترین کے بچوں کو تحائف
حنیف عباسی کے وکیل نے بھی جہانگیرترین کے اپنے بچوں کو لاکھوں مالیت کے تحفوں کا معاملہ اٹھایا تو بشیر مہمند نے کہا کہ انھوں نے تمام تحائف ٹیکس ادا کرنے کے بعد دیے ہیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جہانگیر ترین نے ویلتھ گوشواروں میں بچوں کے تحائف کوظاہر کیا جبکہ بچوں کے اثاثے گوشواروں میں ظاہرکرنے ہوتے ہیں۔
سکندر بشیر نے کہا کہ صرف زیرکفالت بچوں کے اثاثے ظاہرکرناضروری ہے لیکن جہا نگیرترین کے بچے شادی شدہ اور ان کی اپنی آمدن ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کیا جہانگیرترین بیرون ملک اپنے گھر میں جا کررہتے ہیں، جس پر ان کے وکیل نے کہا کہ ہائیڈ ہاوس کورہائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گھرکی ملکیت ٹرسٹ کے نام پر ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگرٹرسٹ ختم ہوجائے توجہانگیرترین کوکیا ملے گا۔
سکندر بشیر نے کہا کہ اگرٹرسٹ ختم ہوجائے تواثاثے کی تقسیم میں جو جہانگیر ترین کوملے وہ ان کااثاثہ ہوگا لیکن ٹرسٹ کوختم کرنے کے لیے قانونی فیصلہ چاہیے ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اپنے طور پر ٹرسٹ کو توڑ نہیں سکتے تاہم ٹرسٹ کو بذریعہ عدالت ختم کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ پاناما کیس میں بھی بنیفشل مالک کا ایشو تھا تاہم سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ حسین نواز کا ٹرسٹ جہانگیر ترین کے ٹرسٹ سے مختلف تھا کیونکہ حسین نواز کمپنیوں کے بنیفشل مالک تھے۔
سکندر بشیر نے کہا کہ ٹرسٹ کے بنانے میں کوئی بدنیتی نہیں ہے، بچوں کے ٹیکس گوشوارے عدالت میں جمع کرواچکا ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بچوں کے زیرکفالت نہ ہونے کا کیاثبوت ہیں۔
جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ جہانگیرترین کوفیملی نے109ملین تحفے میں دیے اور اسی سال 525 ملین جہانگیرترین نے بچوں کودیے کیوں۔
سکندر بشیر نے کہا کہ فنڈز کی ضرورت کے وقت بچوں نے بطورتحفہ رقم بھجوائی۔
بیرون ملک رقم کی منتقلی
جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ 2011 میں ترین نے 25 لاکھ پاؤنڈ بیرون ملک بھجوائے، 2014 میں گیارہ لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ کو کی گئی تمام ادائیگیوں کا بنک ریکارڈ موجود ہے اور پلاٹ کو رہن رکھوا کر قرض بھی لیا گیا تھا جس کے لیے دو ملین سے زائد کا قرض ای ایف جی بینک سے لیا گیا۔
جسٹس عمرعطابندیال نے پوچھا کہ قرض کی ادائیگی کس نے اور کیسے کی جس پر وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین نے ادائیگی کے لیے رقم پاکستان سے بھجوائی تھی اور رقم آف شور کمپنی کو منتقل کرتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ بیرون ملک جائیداد سے کوئی آمدن نہیں ہو رہی جس پر جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ کیا ہائیڈ ہاؤس اثاثہ نہیں ہے جواب میں وکیل نے کہا کہ قانونی طور پر ہائیڈ ہاؤس جہانگیر ترین کا اثاثہ نہیں جبکہ تمام ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ عدالت کو دے چکے ہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ دستاویزات سے معلوم نہیں ہوتا کہ رقم کسی اکاونٹ میں منتقل ہوئی تو سکندر بشیرنے کہا کہ پاکستان سے رقم آف شور کمپنی کے اکاونٹ میں منتقل ہوئی اگرعدالت حکم دے تو آف شور کمپنی کے اکاونٹ کی تفصیلات منگوا لوں گا۔
جہانگیر ترین کے وکیل بشیر مہمند نے کیس میں اپنے دلائل مکمل کیے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی دستاویزات آئی ہیں اس لیے یہ توقع نہ کریں کہ 24 گھنٹے میں فیصلہ دے دیں گے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 7 نومبر تک ملتوی کر دیا۔