’میانمار حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کو واپس بلانا چاہیے‘
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا ہے کہ مہاجرین سے متعلق ایشیا کے سب سے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے میانمار کی حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کو ہر صورت واپس بلانا ہوگا۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد نے روہنگیا مسلمانوں کو سرحد پار کرنے اور اپنی ساحلی علاقے میں پناہ لینے کی اجازت دے رکھی ہے۔
25 اگست سے رخائن میں شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے باعث اب تک 6 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش نقل مکانی کرچکے ہیں، اقوام متحدہ کی جانب سے اس کریک ڈاؤن کو روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ قرار دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار:مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد 6 لاکھ کے قریب، اقوام متحدہ
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ نے بنگلہ دیش کی خبر رساں ایجنسی ’یونائیٹڈ نیوز‘ حوالے سے کہا کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے ملاقات کے دوران بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میانمار کو روہنگیا مسلمانوں کو واپس اپنے وطن میں بلانا چاہیے، بنگلہ دیش پر یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے، وہ اسے کب تک برداشت کرے گا؟ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل ہونا چاہیے۔
قبل ازیں سشما سوراج نے بنگلہ دیشی ہم منصب محمود علی سے ملاقات کے دوران تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو بتایا کہ میانمار کی فوج نے نسل کشی کی مثال قائم کی، عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور پورے کے پورے گاؤں جلا دیئے جن کی وجہ سے روہنگیا مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان مہاجرین کی فلاح کے لیے اس معاملے کو بہت ہی سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے۔
سشما سوراج کا مزید کہا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کی میانمار میں الگ شناخت کے لیے بھارت ان کی مدد کے لیے تیار ہے، جبکہ رخائن کی معاشی بحالی بھی اس معاملے کا حل ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے خیال میں اس مسئلے کا واحد دیرپا حل سماجی و معاشی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر ہی ہے جس سے ریاست کے ہر طبقے کے لوگوں پر ایک مثبت اثر پڑے گا۔‘
مزید پڑھیں: میانمار فوج کی ’نسل کشی‘ مہم میں خواتین سے ریپ کا انکشاف
اس موقع پر بنگلہ دیشی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی میانمار حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہیے تاکہ روہنگیا بحران کے لیے امن کا راستہ نکل سکے۔
محمود علی نے کہا کہ بھارت کا روہنگیا بحران کو حل کرنے کے لیے یہ قدم چین کی میانمار حکومت کی حمایت کی پالیسی پر گہرا اثر ڈالے گی۔
خیال رہے کہ چین کی حکمراں جماعت ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے حکام نے کہا تھا کہ امن و استحکام کی بحالی کے لیے چین دیگر ممالک کی طرح میانمار حکومت کے اقدامات کے خلاف نہیں جائے گا۔
پارٹی کے نائب وزیر برائے انٹرنیشنل ڈپارٹمنٹ کا روہنگیا باغیوں کی جانب سے میانمار فورسز پر حملوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ بیجنگ پرتشدد واقعات کی مذمت کرتا ہے اور امن کی بحالی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی پشت پناہی کرتا رہے گا۔