جمہوریت ’ایک لاڈلی دلہن‘
پردیس میں رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ بندہ شام کے ٹی وی پروگراموں میں اینکروں کے دل دہلا دینے والے تبصروں سے کافی حد تک بچا رہتا ہے، مگر واٹس ایپ کی وجہ سے اب یہ فائدہ گھاٹے کا سودا ثابت ہورہا ہے کہ کوئی نہ کوئی دوست ایک ایسا ڈراؤنا سندیسہ بھیج دیتا ہے کہ بس اب کے سارا نظام ڈرائی کلیننگ کی تیاری میں ہے۔ کسی دل جلے شاعر نے پچھلے زمانوں میں کہا تھا،
شجر بے سایہ ہوجائے
تو سمجھو بچھڑ جانے کا موسم آگیا ہے
لگتا ہے ن لیگ کے بھی پَت جھڑ کے دن آگئے ہیں۔ کبھی یہ کیس کُھلتا ہے تو کبھی وہ سِرا ہلتا ہے۔ کبھی اِن صاحب پر مقدمہ ہے تو کبھی اُن پر۔ پہلی مرتبہ حکومت میں موجود سیاسی جماعت کی تفتیش ہو رہی ہے تو تسلی ہوتی ہے کہ شاید کچھ اچھا ہی ہو رہا ہو۔
ڈاکٹر یونس بٹ کسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ، 'میرے دوست نے پوچھا، بال گر رہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟ میں نے مشورہ دیا، بال گر رہے ہوں تو نیچے سے ہٹ جانا چاہیے۔' سو ن لیگ کی پوری کوشش یہی ہے کہ گِرتے بالوں کے نیچے سے کسی بھی طرح ہٹا جائے۔ اُوپر سے یہ قیامت کے تبصرہ نگار۔ یوں تو ساون کے اندھوں کو ہمارے دیش میں ہرا ہی سوجھتا ہے، مگر اِس مرتبہ یہ جو کچھ لوگ باغوں میں پڑے گنگنا رہے ہیں تو کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
پڑھیے: پاکستان میں جمہوریت
جمہوریت ہمارے ملک میں وہ لاڈلی دلہن ہے کہ جس کو خاندان کے بڑے لے تو آتے ہیں کہ ایک تو شریکوں کا کلیجہ جلانے میں آسانی رہے گی دوسرا بڑے گھر کی بیٹی ہے سو وقت بے وقت کے جہیز کی صورت ملتی امداد سے دال روٹی کا خرچہ بھی چلتا رہے گا، مگر جہاں اِس لاڈلی دلہن نے بولنا چاہا وہاں ٹوک دیا جاتا ہے کہ اجی تم بیٹھی رہو، تمہیں کیا پتہ ہمارے کیا رسم و رواج ہیں اور کیا خاندانی روایات ہیں۔
بڑوں کی تکلیف تو سمجھ آتی ہے کہ کہیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں دخل کا شوق پڑگیا تو وہ کل کسی بڑے مسئلے میں دخل نہ دے۔ مگر سمجھ لاڈلے میاں کی نہیں آتی کہ جن کے لیے ساری جمہوریت کا گھنٹا بج رہا ہے۔ دوسروں کی کیا بات کریں، ہمیں خود بھی اِس جمہوریت سے کوئی خاص اُمیدیں نہیں ہیں۔ اپنی تمام تر مغربی کتابوں کے پڑھنے کے بعد بھی ہم ہما شما کی طرح بزرگوں کے کہے پر ہی خوش ہیں۔
آپ قسم لے لیں ہم سے کہ ہمیں اقبال کا اور کوئی شعر آتا ہو نہ ہو، جمہوریت میں بندوں کو گنے جانے اور تولے نہ جانے والا بند اچھی طرح رٹا ہوا ہے۔ چرچل کا وہ مقولہ تو چسکے لے لے کر گناہگار نے کئی محفلوں میں سنایا ہے کہ جمہوریت کے حق میں سب سے بڑی دلیل ایک جمہوری نظام کا عام ووٹر ہے۔
جب بھی لاہور سے ہماری مرضی کے امیدوار کو شکشت ہوئی ہے ہمیں وہاں کے گوشت کے مشکوک ہونے کا یقین آیا ہے۔ جب بھی سندھ میں ہماری پسند کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوئی ہے، ہم نے وہاں کے وڈیرے کے بدمعاش اور وہاں کے مزارع کے جاہل ہونے کا ڈائلاگ گنگنایا ہے۔
سقراط کے زہر پینے سے لے کر مولانا صاحب کے جمعے کے خطبے تک ہر جگہ اوئے جاگیردار!، اوئے ڈپٹی! اور اوئے اَن پڑھ ووٹرا! قسم کے نعرے سُن سُن کے ہمارا اِس ازلی حقیقت پر ایمان بالیقین آچکا ہے کہ عوام ایک نالائق قسم کی مخلوق کا نام ہے، اور کم پڑھے لکھے لوگوں کی رائے لینے سے بہتر ہے کہ بندہ پشتو فلم دیکھ لے۔
ووٹ کا حق صرف اُس کو ملنا چاہیے جس کے عقل و شعور پر کچھ ذمہ دار حلقے سند ثبت کردیں اور اُمیدوار تو وہی بنے جس کے صادق، امین، سُگھڑ، سوشیل اور معاشرتی طور پر سندر ہونے میں کسی کو کلام نہ ہو۔ جب تک ہم وہ بُلند اقدار حاصل نہ کرلیں عام عوام کو فیصلوں سے دور رکھا جائے اور اِس مقصد کے لیے ایک مناسب سی حکومت بنائی جائے جس میں ٹیکنو کریٹس بٹھائے جائیں جو کہ اپنی اپنی فیلڈ کے چیتے، شیر یا اِسی قسم کی مخلوق ہوں۔
پڑھیے: بادشاہی جمہوریت یا جمہوری بادشاہت؟
ہم اپنے تئیں اِس مُخلصانہ اور پاک باز سوچ میں کافی سچے بھی ہیں مگر دل کا کیا کریں صاحب کہ یہ عجب عجب قسم کے وسوسے تراشتا ہے۔ مثلاً کیا تعلیم یافتہ شخص اَن پڑھ سے بہتر ہوتا ہے؟ میں اپنی تمام تر ڈگریوں اور سرٹیفیکیٹس کے باوجود بھی رشتوں کے پیچ و خم کو کبھی اِس طرح نہیں سمجھ سکا جس طرح میری کم پڑھی لکھی والدہ سمجھتی ہیں۔
میں ایک ایسے مالی کو جانتا ہوں جو قرونِ وسطیٰ میں یورپ کی زرعی معاشیات کے بارے میں تو ا،ب نہیں جانتا مگر کس موسم میں کس پودے کا بیج کاشت کرنا ہے اور کس پنیری کو کتنا پانی دینا ہے اِس بارے میں بڑے بڑے ماہرینِ زراعت سے بہتر بتاسکتا ہے۔
ہمارا دل کہتا ہے کہ بہت سارے اَن پڑھ اتنے بھی اَن پڑھ نہیں ہوتے اور پھر تعلیم بہتر ہے تو کون سی تعلیم بہتر ہے؟ ووٹ دینے کے لیے انگریزی کے لہجے میں بات کرنے والے لوگ زیادہ قابل قبول ہیں یا دو ایکم دو دو دونی چار والے ٹاٹ چھاپ؟ دینی مدرسے کے درسِ نظامی والے بہتر فیصلے کرتے ہیں یا کراچی یونیورسٹی سے جینیٹکس میں ماسٹر والے۔ کِس ڈگری والے کو سیاسی فیصلے میں شرکت کی اجازت ہونی چاہیے اور کس کو چاہیے کہ سر جھکا کر اپنا کام کرے، یہ کبھی سمجھ نہ آسکا۔
ایک سوال ایمانداری کا بھی کلبلاتا ہے، کیا ٹیکنوکریٹ اللہ کے بھیجے ہوئے وہ خاص بندے ہیں جن کا ذکر شیخ سعدی کی حکایات میں یا قرونِ اولی کے بزرگوں کے قصوں میں ہوتا ہے اور سیاست دان وہ کوڑا کرکٹ کا ڈھیر ہیں جن کو ہر شخص اپنے ہمسائے کے دروازے پر دیکھنا پسند کرتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی ٹیکنو کریٹ قسم کے شخص نے بھی کبھی کرپشن کی ہو؟ مثلاً کسی ریٹائرڈ سرکاری ملازم پر غبن کا الزام ثابت ہوا ہو یا کسی انجینئر نے سرکاری ٹھیکے میں رشوت لی ہو یا کوئی ڈاکٹر مریضوں کو مہنگی دوائیاں اِس لیے بیچ رہا ہو کیونکہ اُسے کسی دوائی والی فرم نے پیسے دیے ہوں؟ دل نہیں مانتا کہ کبھی کوئی ٹیکنوکریٹ بھی بے ایمانی کرسکتا ہے مگر وسوسوں کا کیا ہے جی۔
پھر آخر میں ایک اور فضول سوال رائے کے احترام کا بھی ہے۔ مثلاً ہاسٹل کے مینو کا فیصلہ کرنے کے لیے ہر کسی کی رائے سننے کے بجائے بہتر نہیں ہے کہ سب طالب علموں کی ڈگریاں اور اخلاقی حالات ایک ترازو میں تولے جائیں اور پھر اُن کو رائے دینے کا یا نہ دینے کا حق دیا جائے۔
یعنی کیا ایک کم پڑھ یا نعوذ باللہ اَن پڑھ شخص کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے گھر میں پکنے والے کھانے، اپنی چوپال میں ہونے والے فیصلے، اپنی کرکٹ کے میچ یا اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے والے نظام میں اپنی فضول یا کم پڑھی لکھی رائے لاسکے؟ کیا یہ محاورہ زیادہ درست نہیں ہے کہ 'یہ مت دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔'
پڑھیے: پاکستان میں جمہوریت: وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
سو صاحب یقین رکھیں، میں بھی آپ سب لوگوں کی طرح ایسے سارے مشوروں اور ایسی ساری تجاویز سے متفق ہوں جو اَن پڑھ لوگوں کو اُن کی اوقات میں رکھنے، سیاسی لوگوں کے کردار کو محدود کرکے سمجھدار ٹیکنوکریٹس کی مجلس شوریٰ قائم کرنے سے متعلق ہیں۔ بس شیطان کبھی کبھی دل وسوسوں میں ڈال دیتا ہے کہ ہمارے ذہنوں میں لوگوں کے برابر نہ ہونے اور اُن کی رائے کے تولنے کی بات کرنا اِس اشرافی نفسیات کا نتیجہ ہے جو ملوکیت کے پروردہ درباری نظام میں بنی اور جسے انگریزی تعلیم یافتہ سماج نے پروان چڑھایا۔
آزادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے غلام لاشعور میں ابھی تک گورے صاحب کے ٹھاٹھ باٹھ اور مسلمان طالع آزماؤں کے ایمان کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ مُقدس گائے اِس لیے مقدس ہے کیونکہ بنی اسرائیل کے سامری سات سمندر پار دساور سے جادو پھونک کے لائے تھے۔
یا پھر خاکم بدہن جمہوریت کے خلاف آوازیں اصل میں خاندان کے بڑے بوڑھوں کی وہ ناگفتہ بہ خواہشات ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ دلہن گھر کے معاملات میں دخل اندازی دے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
تبصرے (1) بند ہیں