• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

پمز والوں سے بس ایک سوال، ’میرے بچے کا کیا قصور تھا؟‘

شائع October 18, 2017
پمز آج دگرگوں حالت میں کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب چند حرفی دینا مقصود ہو تو یہ دیا جا سکتا ہے کہ خلوص نیت کی کمی۔— فائل فوٹو
پمز آج دگرگوں حالت میں کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب چند حرفی دینا مقصود ہو تو یہ دیا جا سکتا ہے کہ خلوص نیت کی کمی۔— فائل فوٹو

جب کسی بھی ریاست کا اپنے اداروں پر اثر کم ترین سطح پر پہنچ جائے تو پھر معاشرے ریخت کا شکار ہوجاتے ہیں, کیوں کہ جب ادارے زبوں حالی کا شکار ہوں تو وہ خدمت اور فلاح کے شعبہ جات میں کسی بھی طرح سے عوام کی خدمت کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔

اِسی طرح صحت کا شعبہ جو کسی بھی معاشرے میں عوام کو بیماریوں سے پاک زندگی فراہم کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے، اگر وہ بدانتظامی کا شکار ہوجائے تو پھر عوام کا سسکنا لازم ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ وفاق جو کہ صوبوں کے لیے ایک مثال کی سی حیثیت رکھتا ہے وہاں پر ہی جڑواں شہروں کے سب سے بڑے ہسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یا شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کا حال ایسا ہے کہ جاپان والے اب آکر اِس ہسپتال کی حالتِ زار دیکھ لیں تو اپنا سر پیٹ لیں، کیوں کہ آج پمز جس مجسم حالت میں ہے اِس کو بنانے میں جاپانی امدادی ایجنسی جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (JICA) کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

پڑھیے: اگر کچھ بچے مر گئے تو کیا ہوا؟

پمز آج دگرگوں حالت میں کیوں ہے؟ اِس سوال کا جواب چند حرفی دینا مقصود ہو تو یہ دیا جاسکتا ہے کہ خلوص نیت کی کمی، کیوں کہ اِسی ہسپتال کے مرکزی حصے یعنی اسلام آباد ہسپتال (IH) کی عقبی سمت میں دیکھیں تو وی وی آئی پی وارڈ کی شان و شوکت ہی نرالی ہے۔ چمکتا فرش، خود کار داخلی دروازے، بااخلاق عملہ، بہترین طبی سہولیات، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اُس طرف عوام کا داخلہ ممنوع ہے۔

یہ حصہ صرف اور صرف اِس ملک کی اشرافیہ کے لیے مختص ہے۔ باقی پورے ہسپتال میں آپ کو جھاڑ جھنکار ایسے نظر آئے گا جیسے کوئی اجڑی ہوئی وادی ہو۔ سوائے وی وی آئی پی وارڈ اور کسی حد تک چلڈرن ہسپتال کے باقی کئی ایکڑ پر پھیلے ہسپتال میں نہ کوئی تنظیم نظر آتی ہے اورنہ ہی انتظامیہ۔ آپ کی قسمت خراب ہوئی اور آپ کو اگر کچھ ٹیسٹوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو فکر نہ کریں ہسپتال کے باہر سے ہی کروانے ہوں گے کہ ہسپتال کی اکثر مشینیں خراب حالت میں ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ کسی دردِ دل رکھنے والے نے اپنی والدہ کی روح کے ایصال کے لیے جو انتظار گاہیں تعمیر کروائیں وہ بھی آج ٹھیکیداروں کے ہتھے چڑھ گئی ہیں اور اِن کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔ رفع حاجت کی ضرورت پیش آئے تو بے شک آپ غریب تر ہوں مگر آپ کی جیب میں پیسے ہونا لازم ہیں کیوں کہ اِس کے بغیر آپ داخل نہیں ہوپائیں گے، اِس لیے اگر جیب خالی ہے تو بہتر یہی ہے کہ کونا کھدرا تلاش کر لیجیے۔

پڑھیے: لاہور کے سرکاری ہسپتال میں میرے 10 تکلیف دہ دن

زچہ و بچہ نگہداشت ہسپتال یعنی میٹرنل اینڈ چائلڈ کیئر ہسپتال جو کہ نام کے لحاظ سے ہی حساس شعبہ ہونا چاہیے کہ نونہال یہاں ابتدائی سانس لیتے ہیں، مگر اِس کے تہہ خانے میں آپ واش رومز کی حالت ملاحظہ کریں تو آپ کو کئی فٹ دور سے ہی ابکائیاں اور کھانسی کا دورہ شروع ہوسکتا ہے کہ گندگی اور دھول مٹی اِس قدر ہے، پھر یہ ایسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جیسے پاکستان کے بڑے ہسپتال نہیں بلکہ موئن جو دڑو کے کسی ہسپتال کے واش رومز ہوں۔

آپ چاہے کشمیر سے آئے ہوں یا خیبر پختونخواہ سے، آپ کو پیسے لیے بناء یہاں گاڑی پارک نہیں کرنے دی جائے گی کیوں کہ لینے والے نے پارکنگ کا ٹھیکہ بھی مہنگے داموں حاصل کیا ہوگا۔ رہی سہی کسر اپنے دورِ حکومت کے آخری دنوں میں زرداری صاحب نے اِس ہسپتال کو میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دے کر پوری کردی۔ چار سال تنازعہ حل نہ ہو پایا اور حال ہی میں گائنی وارڈ، جنرل او پی ڈی، اور دیگر شعبہ جات میں ہڑتال جاری رہی۔

ہسپتال کے طبی امور کے لیے راقم کا ذاتی تجربہ ہی کافی ہے کہ آپریشن جاری ہے اور پرچی باہر آتی ہے کہ یہ فوری لانا ہے۔ بھاگم بھاگ ہسپتال سے کچھ ہٹ کے بلیو ایریا کا رخ کیا اور جب وہاں سے مطلوبہ شے حاصل کی تو سر پیٹنے کو دل چاہا کہ قیمت صرف 20 روپے تھی، یعنی ہسپتال کے پاس 20 روپے مالیت کی عام سی یہ نالی بھی میسر نہیں ہے۔ اِس کے باوجود کہ اہلیہ اِسی ہسپتال سے باقاعدہ علاج کروا رہی تھیں، جب ایمرجنسی حالت میں اُن کو یہاں لایا تو کیوں کہ ہڑتال تھی لہٰذا داخلے کے لیے جو پاپڑ بیلنے پڑے وہ یہاں لکھنا ممکن نہیں۔

مزید پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

محکمانہ علاج کی سہولت میسر ہونے کے باوجود راقم نے وفاقی ہسپتال کا رخ کیا کہ اِن کے پاس جدید سہولیات ہوں گی اور زچہ و بچہ کے معاملات کا پرانا تجربہ تھا کہ بہتر طور پر سنبھالتے ہیں، مگر پرانا تجربہ پرانا ہی رہا، کیوں کہ نومولود کو پورے پانچ گھنٹے کی جہدو جہد کے بعد بھی بچایا نہ جا سکا اور جب آخری وقت میں نومولود کے ساتھ نرسری میں قدم رکھا تو وہاں کسی سینئر ڈاکٹر کا نام و نشان تک نہ تھا۔

یہ بات ٹھیک کہ تقدیر کے فیصلے بدلے نہیں جاسکتے اور ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز کی قابلیت پر بھی شک نہیں مگر دل سے پھانس کیسے نکلے کہ اگر کوئی سینئر ڈاکٹر موجود ہوتا تو شاید آج غم کے بجائے خوشی منا رہے ہوتے۔ مختصراً یہ کہ اگر آپ کا ارادہ پاکستان کے چند بڑے ہسپتالوں میں سے ایک یعنی پمز میں علاج کروانے کا ہو تو سب سے پہلے اِس ہسپتال میں موجود تگڑا سفارشی ڈھونڈیے کیوں کہ اِس کے بناء یہاں سے بہتر علاج کی توقع رکھنے کے اب دن نہیں رہے، بلکہ اگر ہڑتال ہو تو سفارشی کو بھی ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں۔

اگر آج وفاق کا حال کچھ یوں ہے تو بلوچستان و سندھ کے مضافاتی علاقوں کا سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، اور لاہور میں کل سڑک پر بچے کی ولادت ہونا بھی غنیمت لگ رہا ہے کہ چلو سڑک تو لاہور شہر کی تھی، تھر کا صحرا ہوتا تو دونوں کا بچنا بھی محال تھا۔

ہسپتال میں مریض خوار ہوتے رہے، حاملہ عورتیں کراہتیں رہیں، مگر ہڑتال والے ہڑتال پر قائم رہے۔ انتظامیہ اپنی جگہ ڈٹی رہی اور دو ہفتے سے زیادہ عوام کو ذلیل کرکے معاملہ کسی نہج پر پہنچا۔ اگر تو وی آئی پی وارڈ میں بھی ہڑتالی ڈاکٹرز کا دائرہ کار بڑھ جاتا تو شاید سوچا جاسکتا تھا کہ سنجیدگی سے معاملہ سر اُٹھانے سے ہی دب جاتا مگر ضرب کیوں کہ عوامی مفادات پر لگ رہی تھی اِس لیے اشرافیہ کی نیند میں خلل نہ پڑا۔

پڑھیے: سندھ شدید بیمار ہے سائیں

ذمہ داران کل بھی بچ نکلتے تھے، ذمہ داران آج بھی بچ جاتے ہیں کیوں کہ وہ اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو سوئی چبھنے پر بھی فرنگستان سدھار جاتے ہیں۔ کل بھی غریب ہی پستے تھے اور خدشہ یہی ہے کہ آنے والے کل بھی غریب ہی پستے رہیں گے کیوں کہ یہ پاکستان ہے۔ یہاں اداروں کی سسکیاں حکمرانوں کو نیا جلا بخشتی ہیں۔ یہاں اداروں کی گرتی دیواریں سیاست کو پروان چڑھانے میں مددگار ہوتی ہیں۔

آفتاب سے کئی جو جاں سے گئے اُنہیں خدا غریق رحمت کرئے مگر دست بدستہ عرض ڈاکٹرز سے بس اتنی سی ہے کہ آپ مسیحا ہیں اور آپ میں لوگوں کی زندگی کی اُمید دِکھتی ہے۔ اُن کی امیدیں نہ ٹوٹنے دیں۔ مفادات کا تحفظ باقی رکھنے کے ذریعے اور بہت ہیں۔ خدارا انسانیت کو شرمندہ نہ ہونے دیں۔ زخموں کی مسیحائی ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتی اور اگر آپ کا نصیب ہوچکی ہے تو طالب و مطلوب کے سے رشتے کو کاروباری مفادات کی نذر نہ کیجیے۔ انسانیت کا احترام کیجیے، ورنہ یہ دنیا تو مکافات عمل ہے۔ جو آج بو رہے ہیں کل کو کاٹنا بھی پڑسکتا ہے۔ آسانیاں بانٹیں، خدا آپ کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے گا۔

شاہد کاظمی

شاہد عباس گزشتہ آٹھ سال سے کالم نگاری کررہے ہیں۔ اِس کے علاوہ سو لفظی کہانیاں اور مختصر دورانیے کے سکرپٹ لکھنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024