ایک بھرپور ہفتے کے تین اہم واقعات
اِس ہفتے بہت کچھ ہوا۔ کچھ نیا، کچھ پرانا اور کچھ بالکل ہی غیر متوقع۔ آپ فیصلہ کریں کہ کون سی چیز کیا ہے۔
مگر اِس سب کا مطلب کیا ہے؟
چلیں سب سے پہلے اغواء اور بازیابی کی کہانی پر بات کرتے ہیں۔ بحرانوں کی گائیڈ بک سے ایک اصول: ایسی چیز تلاش کریں جو آپ دوسرے فریق کو پیش کرسکیں، تاکہ دونوں ہی فریق اچھے دکھائی دیں اور ایک دوسرے کے بارے میں اچھے الفاظ کہتے نظر آئیں۔
نوجوان خاندان کے لیے اچھی بات ہے کہ وہ بازیاب ہوگئے۔ اگر کوئی ایسی چیز ہے جس پر سب متفق ہوسکتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ خاندان کو اُس کی مرضی کے بغیر یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا، اور ایسی قید سے زیادہ بُری چیز شاید ہی کچھ ہو۔
مگر یہ پوری کہانی دیگر طریقوں سے اور بھی بہت کچھ بتاتی ہے۔
پہلی بات، اعتماد کی شدید کمی ہے، شاید اتنی زیادہ کہ اِسے پورا کرنا ناممکن ہے۔ ایک نوجوان خاندان کی بازیابی ایسی چیز ہے جو میڈیا اور حکام کے لیے بہت ہی پُرکشش ہو، مگر مجموعی تعلقات کی بہتری میں یہ زیادہ مدد نہیں دے سکتی۔
اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ چاہے اِس کارروائی کا انتخاب کیا گیا یا اِس پر اتفاق کیا گیا، مگر اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے کتنا دور ہیں۔ ماضی میں انہوں نے ایک یا دو بڑے دہشتگردوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنا دیا ہوتا۔
پڑھیے: کینیڈین جوڑے کی پانچ سالہ قید کا ڈرامائی اختتام
دوسری بات، اِس کہانی نے 'لڑکوں' کو خفا کردیا ہے۔ چاہے اِس خاندان کو حال ہی میں پاکستان لایا گیا یا وہ ایک طویل عرصے سے یہاں موجود تھے، پاکستانی سرزمین سے اِن کی بازیابی اِسی بات کا ثبوت ہے جس کی ہم تردید کر رہے تھے: سرحد کے اِس پار محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی۔
پوچھا جارہا ہے کہ آخر امریکا نے تب کیوں کچھ نہیں کیا جب یہ گھرانہ افغان سرزمین پر تھا؟ مثبت عوامی بیانات کے پیچھے جو خفیہ سرگوشیاں ہورہی ہیں وہ یہ کہ وہ، یعنی امریکی، ہمیں کسی بھی طرح بُرا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
تیسری بات، حقانی نیٹ ورک۔ امریکا کی حقانی نیٹ ورک میں دلچسپی کا اب بھی قائم ہونا خطرے کی علامت ہے۔ یہ امریکی فوج کی دلچسپی ہے، جو اُس کے سفارتکاروں میں اتنی شدت سے موجود نہیں۔
مانا جاتا ہے کہ حقانیوں کے القاعدہ سے تعلقات، حقانیوں کے ہاتھوں امریکی فوج کے جانی نقصانات، امریکی فوج کے لیے قربانی کے بکرے کی تلاش، اِن میں سے کسی ایک یا اِن تینوں چیزوں نے مل کر امریکی فوج کی حقانی نیٹ ورک میں اِس دلچسپی کو جنم دیا ہے۔
جس کارروائی کا انتخاب کیا گیا، اُس میں حقانیوں کا ملوث ہونا اچھا شگون نہیں ہے۔ اِس سے اشارہ ملتا ہے کہ امریکا اب بھی اِس بات پر اڑا ہوا ہے جو یا تو پاکستان معنی خیز انداز میں پورا کرنے کے لیے راضی نہیں ہے یا اِسے پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔
چلیں ایک مختلف طرح کے خطرناک مسخرے کی جانب بڑھتے ہیں، یعنی داماد صفدر۔
مزید پڑھیے: صفدر کی قومی اسمبلی میں تقریرپارٹی پالیسی نہیں، وزیراعظم
یہ بیک وقت جارحانہ اور دفاعی پینترا تھا اور اِس کے دور رس اثرات نہایت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ پہلا، جارحانہ زاویہ: لڑکوں کے خلاف۔
چاہے مرکزی دھارے میں لانے اور خفیہ حمایتوں اور اِسی طرح کے دیگر معاملات پر آپ جتنا بھی شور مچائیں، مگر ایک سرخ لکیر ہے: ادارے کے ساتھ تصادم اختیار نہیں کرنا اور تب تو بالکل بھی نہیں جب آپ (ادارے سے) باہر کے ہوں۔
ویسے تو یہ معاملہ ہمیشہ سے ہی تھا، مگر انسدادِ دراندازی اور انسدادِ دہشتگردی کی مہمات نے ایک نئی طرح کی عجلت پیدا کردی ہے۔
جب کسی معرکے میں دونوں فریقوں کا نعرہ ایک ہی ہو اور آپ کو اپنی طرف کے لوگوں کو یقین دلانا ہو کہ وہی حق پر ہیں، تو آپ ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیں گے جو اتحاد اور مقصد کو ٹھیس پہنچائے۔
صفدر کی تقریر شدید پریشان کن اِس لیے ہے کیوںکہ اِس سے اِس ادارے میں مذہبی بحث کا خطرہ پیدا ہوگیا، جہاں دہشتگردی کے خلاف مکمل اتحاد اور مقصد سے وابستگی ضروری ہے۔
اور چاہے یہ ایک بے وقوفانہ تقریر تھی یا پھر غیر ضروری تنقید، اِسے شدید بُرا خاندانی رشتوں نے بنایا۔
مگر ایک دفاعی زاویہ بھی ہے۔ این اے 120 اور انتخابی اصلاحات میں حلف نامے کے تنازعے نے مل کر ایک ایسی صورتحال پیدا کی جو مسلم لیگ ن کا دائیں بازو کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے کافی تھی۔
شریف خاندان کی اداروں سے جنگ اور پی ٹی آئی کے اپنے صفائے سے کہیں دور ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو معلوم تھا کہ اگلے انتخابات ایک بہت بڑی جدوجہد ہوں گے۔ چنانچہ پارٹی کے دائیں بازو میں ایک کمزوری اُبھر کر سامنے آئی۔
ڈرائنگ روم کی نشستوں سے باہر، انتخابی حلقوں کی جنگی خندقوں میں اُمیدوار کی شہرت و کردار وغیرہ ایک ٹھوس حقیقت کی طرح کام کرتا ہے۔ اگر آپ کے خلاف مذہبی داؤ کھیلا جارہا ہے تو آپ بھی تھوڑا سا مذہبی داؤ کھیل کر خود کو محفوظ بنا لیتے ہیں۔
پارٹی قیادت بھی اِس بات کو سمجھتی ہے، چنانچہ اگر کچھ لوگوں کو اِس تقریر اور اِس کے جارحانہ زاویے سے تشویش ہوئی بھی تھی، تب بھی وہ جانتے ہیں کہ اِس تقریر نے پارٹی کے کچھ ووٹ ضرور بچا لیے ہوں گے۔
شاید ہی کبھی سیاست بدصورت نہ ہو۔
اور اب آخری واقعہ: معیشت کے بارے میں اظہارِ خیال۔ لڑکے معیشت کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ ایک سویلین نووارد جنگی اصولوں کے بارے میں۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو، زیادہ کچھ نہیں۔
جانیے: ’ترقی کیلئے سلامتی،معاشی استحکام میں توازن قائم کرنا ہوگا‘
ٹیکس بیس والا حصہ ایک اچھی چھوٹی سی مثال ہے۔ لڑکوں کو لگتا ہے کہ وہ حق بجانب ہیں کیوںکہ اُن کی زبردست کمرشل سلطنت ہر سال دسیوں ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔
اور کیوںکہ وہ حق بجانب ہیں، اِس لیے اُن کی تنقید کو جائز تنقید سمجھ کر سننا چاہیے۔
مگر اِن اربوں روپوں کی اکثریت سیلز ٹیکس یا دیگر بالواسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ یعنی ٹیکس صارف ادا کرتا ہے اور صارف کی طرف سے کمپنی اِسے قومی خزانے میں جمع کروا دیتی ہے۔
اگر زور دیا جائے تو جواب آئے گا: دیکھیں، کم از کم ہم ٹیکس کو قومی خزانے تک پہنچا تو رہے ہیں۔ یعنی زیرِ لب یہ کہنا کہ دوسرے شعبے باقاعدگی سے ایسا نہیں کرتے۔ چنانچہ لڑکے اب بھی معاشی مشورے دینے کی پوزیشن میں ہیں۔
مگر پھر بھی اِس سے معیشت کی بنیادی فہم کے مجموعی اور پریشان کن حقائق تبدیل نہیں ہوتے: اگر لڑکے آگئے تو پالیسی وہی بنے گی جو اُن کے نزدیک اچھی پالیسی ہوگی۔
اور یہاں ایک پرانہ حربہ بھی ہے: عوامی بیان بازی ایک مددگار جھٹکا ثابت ہوتی ہے۔ چوںکہ حاضر سروس فوج مکمل طور پر ریاستی فنڈنگ پر منحصر ہوتی ہے، اِس لیے ریاستی خزانے میں کمی کا مطلب فوجی اخراجات میں تنگی۔
کیوں کہ یہ ناقابلِ قبول ہے، اِس لیے کبھی کبھار جھٹکا دینا لازمی ہوجاتا ہے۔ اگر ایک دو چیک مسئلہ حل کر دیتے ہیں تو سویلین ایسا بخوشی کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں، کیوںکہ بہرحال یہ اُن کا اپنا پیسہ تو ہوتا نہیں۔
کچھ نیا، کچھ پرانا اور کچھ بالکل ہی غیر متوقع۔ آپ فیصلہ کریں کہ کون سی چیز کیا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں