قندیل قتل کیس: مفتی قوی کے وارنٹ گرفتاری جاری
ملتان: گذشتہ برس مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ماڈل قندیل بلوچ کے کیس میں نامزد ملزم مفتی عبدالقوی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔
ملتان کے جوڈیشل مجسٹریٹ محمد پرویز خان نے قندیل بلوچ قتل کیس کے تفتیشی افسر نور اکبر کی استدعا پر مفتی عبدالقوی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
تفتیشی افسر کے مطابق مفتی عبدالقوی قندیل بلوچ قتل کیس میں شامل تفتیش نہیں ہو رہے۔
تاہم بعدازاں مفتی عبدالقوی نے ایڈووکیٹ محبوب عالم خان کے توسط سے قبل از گرفتاری ضمانت کے لیے درخواست دائر کی، جسے منظور کرلیا گیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج امیر محمد خان نے 17 اکتوبر تک مفتی عبدالقوی کی ضمانت قبل از گرفتاری ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی۔
مزید پڑھیں: قندیل بلوچ قتل کیس میں مفتی قوی ملزم نامزد
مفتی عبدالقوی نے ڈان نیوز سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ 'وہ ہمیشہ اپنے مدرسے میں موجود ہوتے ہیں'، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس نے انہیں جب بھی طلب کیا، انہوں نے تعاون کیا، لیکن معلوم نہیں کہ ان کی گرفتاری کے وارنٹ کیوں جاری کیے گیے'۔
مفتی عبدالقوی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے وکیل کے مشورے پر ضمانت حاصل کی۔
یاد رہے کہ فیس بک ویڈیوز سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے گذشتہ برس 15 جولائی کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا، جس کے بعد پولیس نے ماڈل کے بھائی وسیم کو مرکزی ملزم قرار دے کر گرفتار کیا تھا اور بعدازاں ان کے کزن حق نواز نے بھی گرفتاری دے دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: قندیل بلوچ تھیں کون؟
دوسری جانب فیس بک اسٹار قندیل بلوچ کے ساتھ متنازع سیلفیز کو جواز بناکر ان کے والد عظیم کی درخواست پر رویت ہلال کمیٹی کے سابق رکن مفتی عبدالقوی کو بھی ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 کے تحت اعانت جرم کے الزام میں مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ قندیل بلوچ کے قتل سے کچھ عرصہ قبل ان کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ متنازع سیلفیز سامنے آئی تھیں جنھوں نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: قندیل اور مولوی عبدالقوی کی سیلفی کی 'داستان'
جیسے ہی یہ متنازع تصویر منظر عام پر آئی، مفتی عبدالقوی کو رویت ہلال کمیٹی اور قومی علماء مشائخ کونسل سے معطل کردیا گیا تھا۔
اس حوالے سے مفتی قومی کا کہنا تھا کہ عہدہ تو آنے جانے والی چیز ہے اور ہر عہدہ اللہ تعالی کی طرف سے ملتا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وزارت مذہبی امور نے فیصلہ جلد بازی میں کیا۔