استاد اور شاگرد کا احترام اور شفقت سے بھرپور رشتہ اب تاریخ بن گیا
قدیم زمانے کی بات ہے کہ ایک بار فاتحِ عالم، سکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آیا جو تازہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے بپھرا ہوا تھا۔ یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان تکرار شروع ہوگئی کہ پہلے نالہ پار کون کرے گا؟
سکندر بضد تھے کہ نالے کی دوسری طرف پہلے وہ جائیں گے۔ بالآخر ارسطو نے ہار مان لی اور پہلے سکندر نے ہی نالہ پار کیا، جب عالم اور طالب نے نالہ پار کرلیا تو ارسطو قدرے سخت لہجے میں سکندر سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ، "کیا تم نے مجھ سے پہلے راستہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی؟"
سکندر نے انتہائی ادب سے قدرے خم ہو کر جواب دیا، "ہرگز نہیں استادِ محترم، دراصل نالہ بپھرا ہوا تھا اور میں یہ اطمینان کرنا چاہتا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، کیونکہ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندرِ اعظم وجود میں آئیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو کو وجود میں نہیں لا سکتا۔"
تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل ہے، بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفے ہوں یا ولی اللہ سبھی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔
خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیرِ تعلیم تھے۔ ایک بار استاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کے لیے دوڑے، دونوں ہی استاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہی اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کے آگے پیش کیا۔ خلیفہ ہارون رشید کو اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد احترام امام نسائی کو دربار میں بلایا۔
مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ، "استادِ محترم، آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے؟" مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے۔ پھر محتاط انداز میں جواب دیا، "میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں۔" خلیفۂ ہارون کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اتری اور کہا کہ، "ہرگز نہیں استادِ محترم، سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفۂ وقت کے بیٹے آپس میں جھگڑیں۔"
وقت گزرا، زمانے نے چال بدلی اور نئے روایتوں نے جنم لیا، حکایتیں بدلیں، نہیں بدلا تو استاد اور شاگرد کا انوکھا اور خوبصورت رشتہ۔ نہ صدیوں کی مسافت نے اِس احترام کو گہنایا جو استاد کا خاصہ تھا، اور نہ ہی وقت کی دھول شاگرد کی اپنے استاد کے ساتھ بے پناہ اور بے لوث محبت پر ذرہ برابر اثر انداز ہوسکی۔
ویسے تو مولانا رومی اور اُن کے روحانی استاد، شمس تبریز کی پہلے ملاقات کے بارے میں کئی طرح کے ماورائی قصے اور کہانیاں مشہور ہیں، مگر اِن کی سچائی یا حقیقت میں سر کھپانے کے بجائے آئیے مولانا رومی ہی کے الفاظ میں جانتے ہیں کہ اُس ایک ملاقات نے کس طرح اُن کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔
"مجھے آج بھی چینی کے گوداموں کے قریب کی وہ جگہ اچھی طرح یاد ہے جہاں میری اپنے روحانی استاد شمس تبریز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اب جب کبھی اکتوبر کے اُن دنوں میں شمس سے دائمی جدائی کا غم شدت اختیار کر جاتا ہے تو میں چلّے میں بیٹھ کر شمس کے سکھائے محبت کے اُنہی چالیس (40) اصولوں پر غور و غوض شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا شمس اِس دنیا سے رخصت ہوا تو کہیں دنیا کے کسی اور کونے میں کسی دوسرے نام سے ایک نئے تبریز نے جنم لیا ہوگا، کیونکہ شخصیت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن روح وہی رہتی ہے۔"
ہماری کائنات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ یہاں ہر شے متحرک ہے، اور یہی تحرک انسانی زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھتا ہے، تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی، جہاں کہیں جمود آیا وہ قوم صفحۂ ہستی سے مٹتی چلی گئی۔ جمود اُسی وقت آتا ہے جب انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اخلاقی اقدار زوال پزیر ہوں۔ بیتے زمانے میں اِس زوال کا آغاز کب، کہاں، کس موڑ پر ہوا؟ آئیے تھوڑا غور کریں۔
کچھ صدیاں پیچھے جا کر مغلیہ دور میں قدم رکھتے ہیں۔ مغل حکمرانوں کی عیش کوشی اور بداعمالیوں کے قصوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن استاد کا احترام وہ بھی خود پر واجب سمجھتے تھے۔
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو ملا احمد جیون سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ شہنشاہ بننے کے بعد ایک روز استاد کی یاد ستائی تو انہوں نے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ دونوں نے عید کی نماز ایک ساتھ ادا کی، وقتِ رخصت اورنگزیب نے محترم استاد کو ایک چوّنی (چار آنے) بصد احترام پیش کیے۔
وقت کا دھارا بہتا گیا، اورنگزیب مملکتی مسائل میں ایسا الجھے کہ ملا جیون سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہ ملا۔ لگ بھگ دس سال بعد اُن سے اچانک ملاقات ہوئی تو وہ یہ دیکھ ششدرہ رہ گیا کہ ملا جیون اب علاقے کے متمول زمیندار تھے۔ استاد نے شاگرد کی حیرت بھانپتے ہوئے بتایا، "بادشاہ سلامت میرے حالات میں یہ تبدیلی آپ کی دی ہوئی اس ایک چوّنی کی بدولت ممکن ہوئی۔"
اِس بات پر اورنگزیب مسکرائے اور کہا کہ، "استادِ محترم آپ جانتے ہیں میں نے شاہی خزانے سے آج تک ایک پائی نہیں لی مگر اُس روز آپ کو دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، وہ چونی میں نے شاہی خزانے سے اُٹھائی تھی اور اُس رات میں نے ہی بھیس بدل کر آپ کے گھر کی مرمت کی تھی تاکہ خزانے کا پیسہ واپس لوٹا سکوں۔"
استاد و شاگرد کے درمیان خلوص و محبت، جذبۂ ایثار اور انتہائی ادب و احترام صرف مشرقی یا اسلامی معاشرے کا خاصہ نہیں رہا بلکہ تاریخ میں کئی ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں مغرب کے اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے میں بھی استاد نے والدین سے بڑھ کر قربانیاں دے کر شاگرد کی زندگی سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اِنہی میں اسے ایک لا زوال داستان "ہیلن کیلر" اور اُن کی جذبۂ ایثار سے سرشار استانی "مس این سلیوان" کی بھی ہے۔ یہ ٹیلی فون کے مؤجد الیگزینڈر گراہم بیل تھے جنہوں نے اُن کی ملاقات ہیلن نامی اِس انوکھی بچی سے کروائی جو شدید دباؤ کا شکار تھی اور دیکھنے، سننے اور بولنے کی تینوں بنیادی حسوں سے نا بلد تھی۔
این سلیوان نے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے ہیلن کو پڑھانے کی ٹھانی۔ وہ اُس کے ہاتھ پر پانی گرا کر بتاتی کے پانی کیسا ہوتا ہے، اُس کے احساسات جگاتی، یوں بتدریج کھٹن مراحل کے بعد ہیلن اپنے ارد گرد کی دنیا سے آشنا ہوئی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک نامور مصنفہ بنیں جس کا تمام تر سہرا این سلیوان کے سر ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں جب این سلیوان ہسپتال میں تھیں تو کامیابیوں کے عروج پر چڑھتی ہیلن ہر روز اُن سے ملنے آتیں مگر وہ کسی بھی طرح اُن قربانیوں کا خراج ادا کرنے سے قاصر تھیں جو اُس عظیم استانی نے اُن کی زندگی سنوارنے کے لیے دی تھیں۔
اشفاق احمد اپنی کتاب زاویہ کے اندر روم میں قیام کے دوران پیش آنے والا ایک واقع بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہاں اُن کا ٹریفک چالان ہوا اور اُنہیں بارہ آنے جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی گئی، بوجوہ وہ جرمانہ ادا کرنے سے قاصر رہے تو اُنہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ جج اُن سے سوال کرتے رہے مگر اُنہیں جواب دینے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس وہ یہی بول پائے کہ "جی میں یہاں پردیسی ہوں، اُس پر جج نے مجھ سے پوچھا آپ کرتے کیا ہیں؟ میں نے بڑی شرمندگی سے سر جھکا کر جواب دیا کہ جی میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور سب کو حکم دیا کہ "اے ٹیچر ان دی کورٹ۔" سب احترام میں اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ پھر جج نے انہیں یوں مخاطب کیا جیسے بڑے ہی شرمندہ ہوں۔ اِسی شرمندگی میں جج نے کہا کہ "جناب آپ استاد ہیں، ہم جو آج جج، ڈاکٹر، انجینئر جو کچھ بھی بنے بیٹھے ہیں وہ آپ اساتذہ ہی کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے، مجھے بہت افسوس ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدِنظر رکھ کر آپ کو چالان ادا کرنا ہوگا کیونکہ بہرحال آپ سے غلطی ہوئی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔"
اشفاق احمد نے مزید لکھا کہ اُس روز وہ اِس قوم کی ترقی کا اصل راز جان گئے تھے۔
اب آئیے اِس مضمون کے آخری حصے کا رخ کرتے ہیں یعنی موجودہ دور کا جائزہ لیتے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلاب نے اب بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اب نہ وہ پہلے جیسی محبتیں باقی رہی ہے اور نہ ہی رشتوں میں وہ خلوص رہا ہے جو انسانی معاشرتی زندگی کا اصل اساس تھا۔
نفسا نفسی کے اِس دور میں ہر کسی کے لیے سب سے اہم اُس کی ذات ہے، سو اساتذہ نے بھی چولہ بدلا، کہیں اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کلاسز کا طویل بائیکاٹ تو کہیں عین امتحانات کے قریب آتے کوئی نیا شوشہ چھوڑ کر ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے مطالبات کا حصول، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اُن کے چند دن کے بائیکاٹ یا ہڑتال سے لاکھوں طلبہ و طالبات کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے۔
دوسری طرف حکومت اور اساتذہ کی چپلقش سے والدین کا سرکاری اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں سے اعتبار اٹھتا گیا اور اُن کی اولین ترجیح نجی تعلیمی ادارے ٹھہرے، جس کی وجہ سے ایک طرف طبقاتی امتیاز اجاگر ہوا اور دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو کھل کر مال بٹورنے کا موقع ملا۔ اِس سنگین صورتحال میں گیہوں کی طرح پستے ہوئے طلباء کا ذہنی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہونا ایک لازمی امر تھا، سو اُن کی نظر میں استاد کی عزت گھٹتی گئی اور یوں شاگرد اور استاد کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے۔
تعلیمی سرگرمیوں کی جگہ سیاست نے لی تو ملک کے بعض تعلیمی اداروں میں طلباء نے من مانیاں کرتے ہوئے اساتذہ کی عزت کی وہ دھجیاں بکھیریں کہ آسمان بھی لرز اُٹھے۔ کہیں امتحانات میں پاس نہ کیے جانے پر بات دھمکیوں کے بعد جانی و مالی نقصان تک آئی تو کہیں سرِ راہ سینئر ٹیچرز کی جوان بیٹیاں اغواء کرلی گئیں۔ یوں نیک نیت و بے لوث افراد کا اِس مقدس پیشے سے ایمان اُٹھتا گیا اور کالی بھیڑوں کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا۔
مگر اب بھی آرمی پبلک سکول پشاور کی پرنسپل طاہرہ قاضی جیسے بے لوث اور ایماندار اساتذہ کی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہزاروں معصوم پھولوں کو دہشتگردوں کی وحشت سے بچا کر فرض شناسی اور اپنے پیشے سے اخلاص کی بے نظیر مثال قائم کی، صرف ایک طاہرہ قاضی ہی نہیں ہیں بلکہ بلوچستان میں جہاں خواندگی کی شرح دیگر صوبوں کے مقابلے کافی کم ہے اور جہاں ایک طویل عرصے سے اساتذہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہاں محنتی، جفا کش اور دھن کے پکے اِساتذہ اس سنگین صورتحال میں بھی علم کی شمعیں فروزاں رکھے ہوئے ہیں، اگرچہ تعلیمی معیار یہاں اب بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔
مختصراً کہیں تو وقت کے دھارے کے ساتھ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تعلیم جیسا مقدس پیشہ بھی اخلاقی پستی کا شکار ہوا ہے، معلم اور متعلم دونوں ہی کے لیے اب صرف اپنی ذات ہی سب سے زیادہ عزیز ہے اور استاد اور شاگرد کے درمیان صدیوں پرانی جو بے لوث اور پُرخلوص رشتہ دیکھنے کو ملتا تھا، اب وہ کافی حد تک ماند پڑچکا ہے۔ شاید اِسی لیے نہ اب ارسطو جیسے اساتذہ تاریخ کا حصہ بنتے ہیں اور نہ ہی کوئی سکندرِ اعظم بنتا ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں