ملیے کالاش کے قائداعظم سے!
چترال: تمام اختلافات اور بحث و مباحث کے باوجود تمام پاکستانی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ قائداعظم صرف ایک ہیں۔
محمد علی جناح کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں، جنھوں نے اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے ایک گولی چلائے بغیر ایک وطن حاصل کرلیا۔
یہ سب تو اپنی جگہ لیکن وادی چترال کی اونچی پہاڑیوں کے درمیان وادی کالاش میں ایک اور قائداعظم بھی موجود ہیں۔
یہ قائداعظم، کالاش کی وادی رومبور میں 1975 میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک کمیونٹی لیڈر تھے، جنھیں شاید امید تھی کہ ان کا بیٹا قائداعظم کے نقش قدم پر چلے گا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی اولاد کا نام قائداعظم رکھا۔
بہت سے لوگوں نے اس نام کو قبول کرلیا جبکہ کچھ کو اس پر تحفظات تھے۔
رومبور کے قائداعظم نے بتایا، 'جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو میرے ایک استاد نے مجھے بلایا اور کہا کہ مجھے اپنا نام تبدیل کرلینا چاہیے کیونکہ دوسری صورت میں بڑے ہوکر کالج اور یونیورسٹی جاکر یہ نام میرے لیے مشکلات پیدا کرے گا'۔
مزید پڑھیں: قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق
قائداعظم کے مطابق، 'میں نے انھیں کہا کہ مجھے اس بارے میں سوچنے کے لیے ایک دو روز دیں، پھر میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟'
انہوں نے بتایا، 'میرے والد نے مجھے کہا کہ قائداعطم نام ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور یہ کہ انہیں اپنے بیٹے کے لیے نام کا انتخاب کرنے کا پورا حق حاصل ہے، یہ ایک مناسب طریقے سے رکھا گیا نام ہے، جسے تبدیل کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے'۔
اور واقعی مسٹر جناح کو ان کی زندگی میں کافی آگے جاکر قائداعظم کا خطاب ملا جبکہ اس قائداعظم کو پیدا ہوتے ہی یہ نام مل گیا۔
کالاش میں ایک عادت یہ پائی جاتی ہے کہ اگر انہیں کسی نام کی آواز پسند ہے تو وہ اسے رکھ لیتے ہیں، جب قائداعظم کو یہ نام ملا تھا تو یہ وادی اُس وقت باقی ملک سے کچھ کٹی ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: جناح صاحب بمقابلہ قائد اعظم
قائداعظم نے بتایا، 'کالاش میں لوگ پاکستان اور مسٹر جناح کے بارے میں واقعی نہیں جانتے تھے، وادی میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی لہذا انہوں نے نہیں سوچا کہ یہ نام کچھ غیرمعمولی ہے، اس نام کو رکھے جانے کے بعد ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ قائداعظم کون تھے'۔
اساتذہ کو نہیں لگتا تھا کہ یہ نام ٹھیک ہے، تاہم اپنے والد کے مشورے پر قائداعظم نے انہیں بتایا کہ وہ اپنا نام تبدیل نہیں کرے گا، قائداعظم کے مطابق، 'میں نے انہیں بتایا کہ اگر میرے نام میں کوئی مسئلہ ہے تو یہ میرا مسئلہ ہے، ان کا نہیں'۔
قائداعظم اب چترال میں ہندو کش ہائٹس ہاسٹل میں سینئر اسٹاف ممبر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ زیادہ تر غیر ملکی مہمانوں کو ان کے نام پر کچھ شبہ ہوتا ہے جبکہ پاکستانی سیاح کچھ شش و پنج کے بعد ان کے نام کو ایک مسکراہٹ کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔
قائداعظم شادی شدہ ہیں اور ان کے 6 بچے ہیں، جن میں 3 بیٹیاں اور 3 بیٹے شامل ہیں اور انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بیٹوں کے نام سکندر اعظم، مغل اعظم اور شاہ میرِ اعظم رکھے ہیں۔
ان کی بیٹیوں کے نام بھی روایتی ہیں، لیکن سب کا اختتام 'اعظم' پر ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: کون سے قائد اعظم؟
قائداعظم نے بتایا، 'جب میرے بیٹے مغل اعظم کو معدے کا مسئلہ ہوا تو میں اسے پشاور کے ایک ہسپتال لے کر گیا، وہ صرف 2 برس کا تھا، میں نے اسٹاف کو جب اس کا نام بتایا تو وہ سب حیران رہ گئے اور پھر انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا'.
انہوں نے مزید بتایا، 'اس کے بعد ایک پروفیسر اور رجسٹرار کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بلوایا گیا، دونوں خوب ہنسے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کو میرے بیٹے کا خاص خیال رکھنے کو کہا، جس کے بعد اس کا بہت اچھا علاج ہوا'۔
یہ نام اُس وقت بھی زیر بحث آیا جب 1993 میں قائداعظم لوگوں کو کالاش کی ثقافت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے بھارت کے شہر ممبئی کے دورے پر گئے، انہوں نے بتایا، 'ممبئی میں ایک بڑی نمائش تھی، جب ہم واہگہ بارڈر پر آئے تو مجھ سے میرا پاسپورٹ مانگا گیا، آفیسر پہلے تو تھوڑا پریشان ہوا اور پھر ہنسنے لگا، انہوں نے پوچھا کہ کیا میں واقعی قائداعظم ہوں ؟ اور جب میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے مجھے چائے پینے کی دعوت دیتے ہوئے دوسروں کے مقابلے میں مجھے جلدی اسٹیمپ دے دی'۔
ویسے سوال یہ ابھرتا ہے کہ ان کی اہلیہ کیسا محسوس کرتی جب انہیں بار بار اپنے شوہر کو قائداعظم کہہ کر بلانا پڑتا ہے؟
تاہم قائداعظم نے یہ مشکل بھی آسان کردی اور بتایا کہ ان کی اہلیہ انہیں ہمیشہ قائداعظم کہہ کر بلاتی ہیں اور انہوں نے اس سے کبھی انکار نہیں کیا۔
یہ رپورٹ 29 ستمبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں