• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

آپ غلط ہیں، سراسر غلط!

شائع September 26, 2017 اپ ڈیٹ September 28, 2017

موجودہ دور میں اگر کسی قوم کے طرزِ فکر کا مطالعہ کرنا ہے تو سوشل میڈیا پر جاری اُس قوم کے رجحان کا جائزہ لے لیجیے، آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ اُس قوم کے فکری نظریات کیا ہیں، اُن کی ترجیحات کیا ہیں، اُن کے نزدیک کون سے معمولی مسائل غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، اور کون سے سنگین مسائل اُن کے نزدیک بال برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے۔

ہم نے بھی پچھلے دنوں ایک قوم ہونے کے ناطے اپنے فکری رجحان کا مظاہرہ ماہرہ خان کی 'ناقابلِ اعتراض' تصاویر پر لاتعداد تبصروں کی صورت میں کیا۔ ساتھی اداکار کے ساتھ نیویارک کی کسی سائیڈ واک پر بیٹھی سگریٹ کے کش لیتی ماہرہ خان کا یہ روپ کسی نامعلوم خیر خواہ سے برداشت نہ ہوا۔

اُس نے جھٹ سے اپنا اسمارٹ فون نکالا اور کھٹ سے تین چار تصویریں بنا ڈالیں۔ ماہرہ کے ہاتھوں میں دبی سگریٹ بھی اتنی دیر میں ختم نہ ہوئی ہوگی جتنی دیر میں یہ تصویریں سوشل میڈیا پر عام کردی گئیں، اور کئی دنوں کی جمود سے اکتائی پاکستانی عوام کو بالآخر تبصرے کرنے کے لیے ایک موضوع مل ہی گیا۔

تو جناب ماہرہ کے ہاتھ میں دبی سگریٹ سے لے کر، اُس کا لباس، اُس کے ساتھ موجود ہندوستانی اداکار، حتیٰ کہ اُس کی پیٹھ کی ابھری ہوئی ہڈیوں تک پر سیر حاصل لعنت ملامت کی گئی۔ ایک حضرت نے تو جوش میں آکر اداکارہ کو پولیو کی مریضہ تک کہہ ڈالا، یہ سوچے بغیر کہ پولیو کمر کا مرض نہیں ہے۔

زمانہ بدل گیا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں والا محاورہ اب جتنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اتنے سماج کے ٹھیکیدار میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بس نہیں بدلا تو سوچ کا وہ انداز جس کا محور آج بھی عورت کے ٹخنوں سے لے کر اُس کے بدن کا ہر کھلا حصّہ ہے، چاہے وہ نقاب کے پیچھے سے نظر آنے والے محض دو دیدے ہی کیوں نہ ہوں، تو بھلا فٹ پاتھ پر بیٹھی ماہرہ کس کھیت کی مولی ہے؟

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ رات کی تاریکی میں انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنے والوں، بسوں میں بیٹھی خواتین کو سیٹ کے پیچھے سے تنگ کرنے والوں اور سڑکوں پر موجود بھکارنوں سے بیہودہ گفتگو کرنے والوں کو اِس بات کی فکر ہے کہ ماہرہ نے ملک و قوم کا نام ڈبو ڈالا یا اُس کے اِس بے باکانہ فعل سے ہماری معاشرتی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو آپ غلط ہیں، سراسر غلط۔

کیونکہ اگر واقعی ملک کے نام و ناموس کی فکر اِن دوغلے لوگوں کو ہوتی تو برطانیہ میں ہونے والے روش ڈیل اسکینڈل میں بچوں کے ساتھ جنسی عمل اور بلیک میلنگ میں ملوث پاکستانی مردوں کے خلاف بھی اِسی طرح شور و غوغا مچایا جاتا، تصویریں چلائی جاتیں، لعنت ملامت کی جاتی، اسلام سے خارج کیا جاتا۔

اوہو لیکن اب اتنی پرانی بات اکھاڑ کر بھلا کیا فائدہ؟ ویسے بھی وہ کوئی فلمی ایکٹریس کی برہنہ پیٹھ تو تھی نہیں کہ جسے یاد رکھا جاتا، مرد ہیں اور مردوں سے تو ایسی 'غلطیاں' ہو ہی جاتی ہیں۔

تھوڑا اور ماضی قریب میں آتے ہیں گمبٹ کی آرتی کماری کی طرف جسے علاقے کے جاگیردار امیر وسان نے اغوا کر لیا اور جبری طور مذہب تبدیل کروا کے شادی کرلی۔ سندھ کی ہندو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اِس حوالے سے پہلے بھی کئی دفعہ آواز اٹھانے کی کوشش کی گئی، لیکن ایک بار پھر یہاں کوئی سگریٹ کا کش نہ تھا، محض مذہب کے سچے خادمین تھے، سو سوشل میڈیا کی غیرت بریگیڈ اپنی برہنہ پیٹھ دکھا کر بات آئی گئی کر گئی۔

قوم کا مسئلہ نہ سگریٹ کے کش لگاتی ایکٹریس ہے، نہ اُس کا انڈین ساتھی، نا ہی برہنہ پیٹھ اور ٹانگیں، بلکہ اِن دوغلے اور پدرسری لوگوں کا مسئلہ وہ بیمار طرزِ فکر ہے جس نے ہمیں اِس مغالطے کا شکار کردیا ہے کہ معاشرے کی ہر عورت کو اپنی جاگیر سمجھا جائے اور یہ بات ہمیں ہرگز ہضم نہیں کہ ایک عورت اپنی مرضی سے کسی مرد ساتھی کی سنگت میں، معاشرے کی ناقدانہ نظروں سے دور بے فکری کے کچھ لمحات گزار سکے۔

ہمارے 'مشرقی' طرزِ فکر کے مطابق عورت کا اصل مقام تو چار دیواری ہے۔ اِس چار دیواری کے پیچھے اُس کا جسم بھلے ہی ننگا اور زخموں سے چور ہو، بس مشرقیت کا بھرم قائم رہے۔ اِس عورت کو چاہے جتنا ہی تشدد یا ہوس کا نشانہ بنایا جاتا رہے، اِسے زندہ جلا دیا جائے، گلہ گھونٹ کر مار دیا جاۓ یا تیزاب سے اِس کی ہڈیاں گلا دی جائیں یا اِسے کاٹ کر دریا میں بہا دیا جاۓ، مگر معاشرہ اپنی برہنہ پیٹھ دوسری طرف گھمائے گرما گرم تبصروں کے لیے ہمہ وقت کسی قندیل یا کسی ماہرہ کی تلاش میں رہتا ہے۔

مجھے کوئی تو بتائے کہ بھلا یہ اخلاقی پولیسنگ صرف ماہرہ خان پر ہی کیوں؟ وہ جو ہزاروں لاکھوں لڑکے پان کے کھوکھوں کے آس پاس پائے جاتے ہیں، آج تک اُن کی کتنی تصاویر اِس طرح انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی ہیں؟

یا چلیں اگر یہ مانا جائے کہ وہ مشہور نہیں تھے اور ماہرہ خان مشہور ہیں اِس لیے تقابل نہیں بنتا، تو پھر بھی، کیا آپ نے کبھی کسی مرد اداکار کے سگریٹ پینے پر اِس طرح کے تبصرے دیکھے ہیں جس طرح اِس پورے ہفتے میں ہم نے ماہرہ پر کیے؟

عورتوں کے حوالے سے یہ مخصوص رویہ مشرقیت کے دعوے دار پدرسری معاشرے کے طرز فکر میں گہرائی تک نقش ہے اور محض ایک جملہ، ایک تصویر ایک کش کی دیر ہے اور یہ رویہ ابل ابل کر باہر آنے لگتا ہے۔ جب یہی عورت کسی جرگے کے فیصلے کے تحت گینگ ریپ کا شکار ہو رہی ہوتی ہے تب اِس معاشرے کی برہنہ پیٹھ پر غیرت کا کیڑا ذرا بھی نہیں رینگتا۔

اِسی معاشرے کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ 'ہمارا معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانی کے تو اجازت دیتا ہے، مگر تانگہ چلانے کی نہیں۔' منٹو کی وفات کے 62 سال بعد بھی الاّ ماشاء اللہ حالات وہی ہیں۔

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (19) بند ہیں

MAlik USA Sep 26, 2017 07:15pm
You are 100% correct and I agree with your each and every line.
usama Sep 26, 2017 07:39pm
ap aik glaat cheez ko yeah keh kr justify ni keh sakty k yeah km glat hai.. baki ap society main jo cheez famous hti hai log usko jis muhbat sy follow krty hain usi muhbat sy tanqeed bhi krty hain.. sawal yeah ni theek kon or glat kon.. sawal yeah hai k pakistan libral country hai ya islamic.. waisy no doubt apka point of view apni jgah aik asar rkhta ahi
shahzad Sep 26, 2017 07:58pm
i agree 100% about that
Hadi Mirza Sep 26, 2017 08:14pm
I agree with you. every person male or female has its personal life & we don't have any right to criticize and interfere in personal life.
muhammadshahnawaz. Sep 26, 2017 08:21pm
this pictur of mahra ofcource is not ideal for our society. we are still not so much akhlak bakhta as much writer think. laffazi of writer can we say good, but very far from reality,actually reason is ghurbat,wrong distribution of wealthand jahalat.
tanveer Sep 26, 2017 11:38pm
koi comments nhn, bas pidr sari muashray main mardon k ghalat andaz e ikr nain aurat aur mard dunu ko kisay en kamon ka jawaz faraham kr dia hy,
نام میں کیا رکھا ہے؟ Sep 27, 2017 12:25am
پھیپڑے ماہرہ کے خراب ہو رہے ہیں، سرطان لوگوں کو ہو رہا ہے۔
فرخ Sep 27, 2017 01:56am
بالکل صحیح لکھا ہے، یہ لوگ خود اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے اور معاشرے کے ٹھیکیدار بننے کے چکروں میں رہتے ہیں، چاہے خود کبھی انہوں نے اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہ پڑھا ہو نہ سمجھا ہو نہ عمل کیا ہو لیکن دوسروں پر تنقید کرنے کیلئے مولانا بن جاتے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے معاشرے کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے، اس ہجوم (قوم) میں شعور کی کمی ہے،
ali Sep 27, 2017 02:38am
It seems that some people just want to malign Pak society all the time. Where ever you go online people bring up this topic and start bashing Pak society. I saw may be less than 1% who were criticizing Mk. 90% were just defending her. These are the people who want to keep this topic alive so they could display how liberal they are. please let it go, no one is interested in MK naked back. There are many ills in Pakistan but combining two diff things is not wise. Pick one topic and stick to it.Don't make a mixture as no society is perfect. I know this comment won't be printed . Perhaps Dawn should have less censorship.
Pakistani Sep 27, 2017 09:40am
what a piece of writing.... much appreciated!
عمر بشیر خان Sep 27, 2017 09:50am
ماہرہ خان پر کچھ لوگوں کے تبصرہ کو اتنی اہمیت کی ضرورت نہیں تھی۔ جو ہمارے میڈیا نے دے دی ۔ ہر معاشرہ میں کچھ نہ کچھ تعداد میں منفی سوچ والے لوگوں ہوتے ہیں۔ اور معذرت کے ساتھ یہ لوگو نہ آرٹیکل پڑھتے ہیں۔ اور نہ ہی کسی دوسرے کی بات سنتے ہیں۔
riz Sep 27, 2017 10:32am
awesome "رات کی تاریکی میں انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنے والوں، بسوں میں بیٹھی خواتین کو سیٹ کے پیچھے سے تنگ کرنے والوں اور سڑکوں پر موجود بھکارنوں سے بیہودہ گفتگو کرنے والوں کو اِس بات کی فکر ہے کہ ماہرہ نے ملک و قوم کا نام ڈبو ڈالا یا اُس کے اِس بے باکانہ فعل سے ہماری معاشرتی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو آپ غلط ہیں، سراسر غلط۔"
راجہ کامران Sep 27, 2017 11:33am
اگر مائرہ خان کی جگہ کوئی پاکستان مرد اداکار اور دنگویر کپور کی جگہ کوئی بهارتی اداکارہ ہوتی تو کیا سوشل میڈیا پر یہی رجحان ملتا میرے خیال سے نہیں مائرہ خان اداکارہ ہے اور اس کو اداکارہ کی طرح زندگی کا حق ملنا چاہیئے
Ahmad Sep 27, 2017 11:43am
bhai PERSONAL Life hai tou PERSONAL Rekhay na. Media per share kernay ki kiya zaroorat hai.
Femenist Sep 28, 2017 01:49pm
پورے معاملےمیں جس خوبصورتی سے فیمینزم گھسا دیا گیا ہے وہ تعریف کے قابل ہے. جو لوگ غلط کر رہے ہیں وہ غلط ہیں. اسی طرح سے ماہرہ خان نے بھی غلط کیا ہے. یہ پاکستانی قوم کو ریپریسنٹ کرتی ہے اور بہت سے لوگ اسے فالو کرتے ہیں. باقی جن لوگوں کی مثال دی گئی ہے انہوں نے بھی غلط کیا ہے لیکن وہ پاکستان کو ریپریسنٹ نہیں کرتے.
فخر یوسف زئی Sep 28, 2017 05:28pm
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود کچھ بھی کریں تو ٹھیک لیکن اگر دوسراکرے تو اس کے لیے ہمارے پاس بڑی بڑی تحولیں ہیو تی ہیں۔ اگر کوئی کچھ بھی کرے یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے ہمیں خامخوا ٹانگ اڑانے کی عادت ہے اور کچھ نہیں ۔ آپ نے اپنے بلاگ میں جن چیزوں کی نشاندہی کی وہ بالکل ٹھیک ہے ۔
Imtiaz Sep 28, 2017 08:39pm
Well Written! Highly appreciable. (y)
راشد یوسفزئی Sep 29, 2017 11:17am
ہاہاہاہا صرف ایک بات اور وہ یہ کہ یہ تصویریں اگر کسی فلم کا ایک حصہ ہوتیں اور یہ دونوں اس میں اداکاری کر رہے ہوتے تو کیا تب بھی لوگ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے؟ مگر ایک بات یہ بھی ہے کہ چونکہ پاکستان کے اندرون، بارڈرز ،کشمیر اور برما میں انڈیا اپنی مکروہ چالبازیوں سے باز نہیں آرہا تو لوگوں کی برداشت بھی اب جواب دیتی جارہی ہے۔ ماہرہ نہ تو "ماہرانہ برانڈنگ" کر سکیں اور نہ ہی اپنے نام کے ساتھ لگے "خان" کا مطلب سمجھ سکیں تو پھر صرف اسے نہیں ہر کسی کو اس طرح کے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اندرون ملک اور بیرون ملک میں فرق سمجھنا ضروری ہے دوسرے الفاظ میں ماہرہ کو انٹرنیشنل ریلیشنز "پر تجربہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ "معاشرتی علوم" بھی پڑھ لینی چاہئے۔" فُل اسٹاپ۔
لیاقت علی Sep 29, 2017 01:53pm
ڈاکٹر علی شریاتی نے کیا خوب بیان کیا ہے، آج کل کے مسلمان مردوں کی غیرت،،، مسلمان مرد کی غیرت عورت کی بالوں سے شروع ہر کر اسکے پیروں پہ ختم ہو جاتی ہے

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024