• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

امریکا سے تعلقات افغانستان کی بنیاد پر نہیں: شاہد خاقان عباسی

شائع September 21, 2017
وزیراعظم نے واشنگٹن کے کونسل برائے خارجہ تعلقات میں ایک گھنٹے طویل نشست کے دوران صحافیوں سے گفتگو کی—۔فوٹو/ بشکریہ ریڈیو پاکستان
وزیراعظم نے واشنگٹن کے کونسل برائے خارجہ تعلقات میں ایک گھنٹے طویل نشست کے دوران صحافیوں سے گفتگو کی—۔فوٹو/ بشکریہ ریڈیو پاکستان

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات 70 سال پرانے ہیں، صرف افغانستان میں جاری تنازع کی بنیاد پر نہیں۔

وزیراعظم اِن دنوں امریکا کے سرکاری دورے پر ہیں، جہاں انہوں نے واشنگٹن کے کونسل برائے خارجہ تعلقات میں ایک گھنٹے طویل نشست کے دوران صحافیوں سے گفتگو کی اور ان کے سوالات کے جواب دیئے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے نمائندہ برائے قومی سلامتی ڈیوڈ سینجر سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کو شکست دینے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم امریکا کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور آئندہ سامنے آنے والے اختلافات کے حل کے لیے بھی مل کر کام کرتے رہیں گے‘۔

ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’پاکستان سے بڑھ کر افغانستان میں امن کا خوہش مند کوئی اور ملک نہیں‘۔

افغانستان کی جانب سے سرحد پار دراندازی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے وزیر اعظم نیویارک میں

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے مفاد میں ہے اور ہم اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے ہیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ طالبان افغان شہری ہیں اور افغانستان کو چاہیے کہ ان سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کرے۔

’ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار موجود نہیں‘

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا محفوظ، قابل بھروسہ اور مضبوط جوہری کمانڈ اور کنٹرول سسٹم مکمل طور پر سول نگرانی میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاری موجود نہیں، پاکستان نے بھارت کے کولڈ اسٹارٹ نظریے سے نمٹنے کے لیے کم فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیار تیار کیے تھے جو دیگر اسٹریٹیجک ہتھیاروں کی طرح کڑی نگرانی میں ہیں‘۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وقت ثابت کرچکا ہے کہ ہمارے جوہری ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کے حوالے سے کسی سوال کی گنجائش نہیں۔

’افغانستان میں بھارتی مداخلت صورتحال گمبھیر کرنے کا سبب‘

لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بھارتی جارحیت کا مقصد جموں و کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جموں و کشمیر کے معاملے پر اعتماد اور عزت کی بنیاد پر بھارت سے رابطے کی خواہش رکھتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں بھارت کا سیاسی یا فوجی کردار نہیں دیکھتا۔

مزید پڑھیں: پاکستان انتہاپسندی کےخاتمے کیلئےمل کر کام کرے: افغان صدر کی اپیل

وزیراعظم کے مطابق ’افغانستان میں بھارتی مداخلت کچھ حل کرنے کے بجائے صورتحال کو مزید گمبھیر کرنے کا سبب بنے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارت کو افغانستان کی معاشی معاونت کا استحقاق حاصل ہے تاہم ہم افغانستان میں بھارت کے سیاسی یا فوجی کردار کی ضرورت نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی اسے تسلیم کریں گے'۔

امریکی نائب صدر سے اہم ملاقات

یاد رہے کہ گذشتہ روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کے درمیان ملاقات ہوئی تھی جس میں خطے میں امن و سلامتی کے لیے افغانستان کی صورتحال پر پاک-امریکا مذاکرات جاری رکھنے پراتفاق کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی صورتحال پر پاک-امریکا مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق

ملاقات میں مذاکرات کے ذریعے دوطرفہ امور کا حل تلاش کرنے کے مقصد سے ایک امریکی وفد کے اگلے مہینے دورہ پاکستان کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔

شاہد خاقان عباسی اور مائیک پینس کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وزیراعظم نے امریکا کے نائب صدر کو افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔

دوسری جانب افغان صدر نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکا کی نئی افغان پالیسی کو سراہا تھا اور ساتھ ہی عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی تھی۔


کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024