ن لیگ کی سیاست اور مریم نواز کا کردار
اتوار کو لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں کلثوم نواز کی فتح یقینی تھی مگر اتنے کم مارجن سے؟ بالکل بھی نہیں۔
بہرحال این اے 120 وہ حلقہ ہے جو تقریباً تین دہائیوں سے پارٹی اور شریف خاندان کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ یہ ناقابلِ تصور تھا کہ انہیں وہاں سے ہرایا جا سکتا ہے، مگر مقابلہ کانٹے کا تھا، اور اپنی سیاسی قسمت چمکانے کے لیے شریف خاندان کو جس نتیجے کی توقع تھی، یہ وہ نتیجہ نہیں تھا۔
نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے نااہلی کے بعد خالی ہونے والی نشست بھلے ہی شریف خاندان نے واپس حاصل کر لی ہو، مگر پاکستان مسلم لیگ ن اور ملک کے سب سے طاقتور سیاسی خاندان کے لیے یہ سخت مقابلہ باعثِ تشویش ہونا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی کو اتنا سخت مقابلہ مرکز اور صوبے میں حکومت میں ہونے کے باوجود پیش آیا۔
2013 کے انتخابات میں 39,345 ووٹوں کے مارجن سے فتح کا 2017 میں سکڑ کر صرف 14,647 ووٹوں تک رہ جانا پارٹی کی اپنے ہی گڑھ میں حمایت میں کمی کی علامت ہے۔
یقینی طور پر این اے 120 کے ضمنی انتخابات ملکی سیاست کو تو تبدیل نہیں کریں گے، مگر ان کا مستقبل کی سیاست پر گہرا اثر ضرور ہوگا۔
پڑھیے: پنجاب انگڑائی لے رہا ہے
ضمنی انتخابات کسی بھی جماعت کی عوامی مقبولیت پرکھنے کا کوئی قابلِ بھروسہ معیار نہیں ہوتے۔ مگر این اے 120 کو سیاسی اہمیت اس لیے حاصل تھی کیوں کہ یہ نشست ایک وزیرِ اعظم کے صادق و امین نہ ہونے کی بناء پر نااہل ہونے کے بعد خالی ہوئی تھی۔
تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن، دونوں کی ہی انتخابی مہم نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے گرد گھومتی رہی۔
جہاں مسلم لیگ ن نے ووٹ کو وزیرِ اعظم کی نااہلی کے متنازع عدالتی فیصلے کی عوام کی جانب سے نامنظوری قرار دیا، تو وہیں پی ٹی آئی نے اسے اپنی اخلاقی فتح قرار دیا۔ دونوں ہی جماعتوں کا مؤقف درست نہیں ہے۔
ہاں پاناما پیپرز اسکینڈل کا سایہ ان انتخابات پر ضرور تھا، مگر یہ کوئی فیصلہ کن معیار نہیں تھا۔ نااہل ہوچکے وزیرِ اعظم کی اہلیہ کے امیدوار ہونے، اور حکمراں جماعت کی جانب سے مریم نواز کی زبردست انتخابی مہم کے باوجود ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم ایسی اہم حقیقت ہے جسے ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے۔
شاید یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نکالے گئے رہنما اپنے گڑھ میں ایسی ہردلعزیز شخصیت بھی نہیں ہیں جیسا کہ انہیں پیش کیا جا رہا تھا۔ یہ واضح ہے کہ ہمدردی کا ووٹ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ بلا شک و شبہ کلثوم نواز مسلم لیگ ن کی سب سے مضبوط امیدوار تھیں، مگر پھر بھی تاریخی فتح حاصل نہیں کی جا سکی۔
یہ اس لیے بھی حیران کن ہے کیوں کہ تحریکِ انصاف کی اپنی مہم بھی بھرپور نہیں تھی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کو تقریباً اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا اور مہم کے آخری دنوں میں ایک دو جلسوں کے علاوہ کوئی بھی سینیئر پارٹی رہنما ان کا ساتھ دینے نہیں آیا۔
فتح کے اس باریک سے مارجن میں دوسرے عوامل بھی کارفرما رہے ہیں، مثلاً خاندانی جھگڑے اور پارٹی کے اندر پڑتی دراڑیں۔ نادیدہ ہاتھ کے الزامات اور یہ سازشی مفروضے کہ 'ایجنسیوں' نے کئی امیدوار کھڑے کیے تھے، بے بنیاد ہیں۔ لیکن ہاں، کالعدم تنظیموں اور انتہاپسند فرقہ وارانہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر اعتراض جائز ہے۔
مزید پڑھیے: دائیں سے درمیان تک: مسلم لیگ ن کا نظریاتی سفر
ایسے افراد کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا الیکشن کمیشن اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری تھی۔ کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا کہ عسکریت پسند گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے اور انہیں سیاسی پلیٹ فارم سے انتہا پسند نظریات کا پرچار کرنے کی اجازت دینے کی پالیسی ناقابلِ قبول اور غیر قانونی ہے۔
لیکن پھر بھی حیرت ہوتی ہے کہ ان گروہوں کی انتخابات میں شرکت نے مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک کیسے متاثر کیا؟ پارٹی کو دائیں بازو کے انتہاپسند ووٹ حاصل کرنے کی امید کیسے تھی؟ بے ضابطگیاں اور حکمراں جماعت کی جانب سے اپنے حامیوں کو دھمکائے جانے کے الزامات عقل سے ماورا معلوم ہوتے ہیں۔
انتخابی مہم میں مریم نواز کے کردار کے بارے میں کافی بات کی گئی ہے۔ کئی مبصرین ان کی شرکت کو پارٹی قیادت کی دوڑ میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان قرار دیتے ہیں، بھلے ہی وہ کافی عرصے سے پسِ منظر میں پارٹی سیاست کا حصہ رہی ہیں۔
نواز شریف نے واقعتاً اپنی 'قابل' بیٹی کو اپنے جانشین کے طور پر بڑا کیا ہے، مگر یہ پہلی بار ہے کہ وہ مرکزی سیاسی منظرنامے پر سامنے آئی ہیں۔ وہ کافی متاثر کن اور اپنی باتوں میں واضح نظر آئیں۔ قدامت پسند سماجی اقدار اور کابینہ و پارٹی کے سینئر عہدوں میں کم ترین خواتین والی پارٹی کے اندر مریم نواز کا معاملات اپنے ہاتھ میں لینا ایک مثبت تبدیلی ہے۔ مگر موروثی سیاست میں اعلیٰ ترین رہنما کی بیٹی ہونے سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔
جیسا کہ متوقع تھا، اُن کے عروج پر پارٹی کے اندر سے، شریف خاندان اور باہر سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ جہاں انہوں نے پارٹی کے اندر اپنے لیے خاصی حمایت پیدا کرلی ہے تو وہیں کئی سینئر پارٹی رہنماؤں کو ان کی قبل از وقت ترقی پر تحفظات ہیں۔ چوہدری نثار علی خان جیسے پرانے رہنما تو کھل کر بولے ہیں مگر کچھ دیگر نے اپنی تنقید کو اب تک زباں نہیں دی ہے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ان کے جارحانہ رویے نے خاص طور پر ان لوگوں کو ڈرا دیا ہے جو اپنی سیاسی بقا 'اسٹیٹس کو' میں سمجھتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ پتھر کو کشتی کے قریب آتے دیکھ کر ہی چھلانگ لگا دیں گے۔ ابھی تو معاملات اس نہج پر نہیں پہنچے ہیں، مگر بدعنوانی کے مقدمات میں الجھے ہوئے شریف خاندان کی صورتحال کوئی امید افزاء بھی نہیں ہے۔ این اے 120 کے انتخابات کے بعد ان کی بے لاگ تقریر نقادوں کو ضرور ہضم نہیں ہوئی ہوگی۔
جانیے: مقابلہ دائیں بازو کا دائیں بازو سے ہی ہے
خاندان کے اندر سے بھی انہیں کافی مزاحمت کا سامنا ہے۔ بظاہر مریم نواز کی بڑھتی ہوئی دھاک نے پارٹی کے اندر طاقت کی رسہ کشی کو بڑھا دیا ہے۔ شریف برادران اور ان کے بچوں کے درمیان خلیج اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ کے انتخابی مہم کے دوران بیرونِ ملک ہونے نے اختلافات کو مزید آشکار کر دیا ہے۔
ایسے وقت میں جب پارٹی کو اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے، مریم کو سامنے لانا مزید تفریق کا باعث بنا ہے۔ پارٹی کے اندر اور باہر موجود نقادوں کو مریم نواز کا اقتدار اور قیادت کو اپنا حق سمجھنا کھل رہا ہے۔
ایک اور چیز جو مریم کے خلاف جا سکتی ہے، وہ نیب ٹرائل کورٹ کی جانب سے ان پر جعلسازی کے الزامات ہیں۔ تمام عوامل مل کر تخت کی اس دعویدار کے لیے کوئی اچھے حالات پیدا نہیں کر رہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 ستمبر 2017 کو شائع ہوا۔
ترجمہ: بلال کریم مغل